تسی دسو؟ تسی کی کیتا؟

تسی دسو؟ تسی کی کیتا؟
 

 

پی ٹی آئی کی حکومت کو دو سال ہوچلے مگر کارگردگی پہ ڈھیروں سوال ہیں۔ جن کا تسلی بخش جواب شاید کبھی نہ مل سکے۔ اگر پوچھیں بھی تو نہ آپ کی عزت محفوظ رہتی ہے نہ آپ کا خاندان ۔ جس کسی نے پوچھنے کی کوشش کی وہ پھر کہیں کا نہ رہا۔ لیکن یہ ڈگر نئی نہیں اگر آپ 90 کی دھائی کی سیاست کے غیر جانبدار باب پڑھیں تو بہت سے واقعات آج کے واقعات کی گواہی دیں گے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس وقت سوشل میڈیا کی سہولت سے لوگ محروم تھے تو نااہلی اور بھونڈی سیاست کی خبریں بیرون ملک کے اخبارات میں ملتیں یا کوئی دنیا کے مشہور اخبارات کے صحافی اگر پاکستان پہ کوئی کتاب چھاپ دیتے تو یار لوگ منہ چھپاتے پھرتے۔ لیکن وہ معلومات اکثریت سے چھپی رہتیں کیونکہ کم شرح خواندگی حکمرانوں کیلئے ڈھال بنتی ۔ شیخ رشید اس وقت بھی اسی آب وتاب کے ساتھ تھا اب بھی ہے۔

ماں بیٹی ( نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو) کے غلیظ فوٹو اس وقت کے آئی جی آئی میڈیا منیجرز نے فوٹو شاپ کرکے لاہور اور دیگر بڑے شہروں کی سڑکوں پہ فلائنگ کلب کے جہازوں کے ذریعے سے گرائے گئے۔ ( یاد رہے جماعت اسلامی اس میڈیا مہم کی نگرانی کر رھی تھی اور کچھ طاقت ور ادارے بھی معاونت کر رہے تھے جسکا اعتراف سپریم کورٹ کے سامنے بھی کیا گیا۔) اب بھی شیخ رشید بیٹے (بلاول بھٹو زرداری) کے خلاف ویسے ہی ملغات کہتا ہے جو بے نظیر کے متعلق کہتا تھا۔  پی پی پی نے بھی تجوریاں بھریں شریف خاندان نے بھی اپنے کاروبار کو وسعت دی اب بھی وہی ہے، مال سمیٹنے والے مال سمیٹ رہے ہیں بھوک اور بیماری سے اب بھی لوگ مر رہے ہیں۔ عدالتوں کے چٹی دلال اب بھی عدالت کی رہداریوں میں دندناتے پھرتے ہیں۔

کراچی کے تاجر اب بھی بھتہ دے رہے ہیں پہلے انہیں کے بھائی بندے ان کو لوٹتے تھے اب ان کے نعم البدل کوئی اور بھائی بندے ہیں۔ اب تو مذہبی جماعتیں بھی جانوروں کی کھال کے ساتھ انسانی کھال کا مطالبہ کرتی ہیں۔ تھانیدار کی محفل رات کو اسی طرح سجتی ھے۔ واپڈا  ، نیشنل ہائی وے اور سوئی گیس کے اعلی آفسران روز رات کو اعلی شراب کی چسکیاں لیتے لاکھوں کا جوا کھیلتے ہیں ۔ جھوٹ کا استعمال اس وقت بھی بے دریغ تھا اب ٹی وی پہ بیٹھ کے جسطرح ڈھٹائی سے عوام کو دھوکہ دیا جاتا ہے تو دل پکار اٹھتا ہے"لو آج شیطان بھی صاحب اولاد ہوگیا۔"

پھر آپ (پی ٹی آئی) نے کیا کیا کہ آپ کی تعریف کرتے ہم نہ تھکیں؟ بنیادی طور پہ کچھ بھی نہیں اور نہ آپ کچھ کرنے جوگے ہیں۔ کیونکہ ریاست کا ڈھانچہ اب ایسا بن چکا ہے کہ سیاست دان، افسر شاہی اور دیگر طاقت ور ریاستی ادارے اب اپنے مخصوص کردار کے سانچے میں ڈھل چکے ہیں ۔ پاکستان کی بیوروکریسی اور مستقل رہنے والی طاقت کے اداروں نے پاکستان کی بنیاد ہی "ہم" اور "وہ" کی بنیادوں پہ رکھی۔ اگر آپ اپنی آزادی کی بعد کی تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں تو کئی ایسے باب آپ کو پڑھنے کو ملیں گے کہ جب ان اداروں نے اپنا تسلط بڑھانا شروع کیا اور کس طرح ایک نئے سیاستدانوں کی کھیپ تیار کی جو اس سانچے کو برقرار رکھنے اور مظبوط بنانے میں معاون ثابت ہو۔ کس طرح ان اخبارات اور ان صحافیوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون کیا گیا جو ان کے اس سانچے کے اثرات کو لوگوں کی سوچ حصہ بنائے۔ کس طرح مذہبی جماعتوں کو اپنا ہم نوا بنایا گیا کہ جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر نے جنرل یحییٰ کو امیر المونیین کے درجہ پہ لا بٹھایا۔ ( تاریخ کے سنجیدہ طالب علموں سے دست بستہ گذارش ہے کہ وہ زاہد چوھدری کی سات جلدوں پہ مشتمل تاریخ پاکستان ضرور پڑھیں ۔ کچھ سنجیدہ دوستوں کو بھی گذارش کرتا رہا مگر وہ بھی مائل نہ ہوئے ۔ وجوہات ڈھیر ساری ہیں بتانے بیٹھوں تو دوستوں سے ہاتھ دھونے پڑیں گے) ۔

ان سب باتوں کا خلاصہ اگر Breaking the Curfew سے ایک جملہ مستعار لیا جائے تو  مناسب ہوگا۔ " یہ جگہ (پاکستان ) حیرت انگیز دھوکے کا مسکن ہے"  ایسا کیوں کہا گیا تو کتاب پڑھنے میں کوئی مضحکہ نہیں۔عرصہ ہوا لوگوں نے اداروں پہ اعتماد کرنا چھوڑ دیا۔ قبائیلی علاقوں میں پہلے بھی سردار فیصلے کرتے تھے اب شہروں میں مولانا حضرات لوگوں کے خاندانی مسائل نبٹاتے ہیں۔

ایما ڈنکن کے مطابق وہ جس بھی سرکردہ سیاستدان، افسر اور تاجروں سی ملی سب کہتے تھے ملک میں لا قانونیت ہے لیکن وہ چاھتے سب یہی تھے کہ لاقانونیت رہے کہ اسی میں ان کا مال بنتا ہے۔

پھر ایسے ریاستی ڈھانچے میں کیسی اور کہاں کی تبدیلی؟ آپ اپنا کام کریں ہم اپنا کام کرتے ہیں کہ صبح کا کھا لیا شام کا کیسے کھانا ہے۔۔" صبح کرنا شام کا لانا ہے جوئے شیر کا"