• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, مارچ 29, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

خواتین پر بڑھتا ہوا گھریلو تشدد

محمد شافع صابر by محمد شافع صابر
اکتوبر 23, 2019
in انسانی حقوق, بلاگ, تجزیہ, خواتین
8 0
0
خواتین پر بڑھتا ہوا گھریلو تشدد
10
SHARES
47
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

جب ہاسٹل سے واپس گھر پہنچا، تو امی کسی عورت سے باتیں کر رہی تھیں۔ میرا کمرا بھی خلاف توقع اتنا صاف نہیں تھا، جب وہ عورت چلی گئی تو امی نے مجھے بتایا کہ یہ نئی صفائی والی تھی۔ میرے پوچھنے پر انہوں نے بتایا جو پہلے کام کرتی تھی، وہ کام چھوڑ گئی ہے۔

جب انہوں نے مجھے وجہ بتائی تو سننے کے بعد میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ وجہ یہ تھی کہ:

RelatedPosts

پی ٹی آئی والوں کو تشدد اور ناانصافی تبھی نظر آتی ہے جب ان کے اپنے ساتھ ہو

صنعتی انقلاب نے برطانیہ میں خواتین کے بنیادی حقوق کی راہ ہموار کی

Load More

“ہمارے گھر میں جو کام کرتی تھی، اس کا شوہر کوئی خاص کام کرتا نہیں تھا، گھر چلانے کے لیے وہ اس کی اجازت سے لوگوں کے گھر کام کرتی تھی، اس کا شوہر اس پر بلاوجہ تشدد کرتا تھا۔ اس کی ایک بیٹی بھی تھی اور بیٹی پیدا کرنے کی وجہ سے بھی وہ اپنی بیوی کو مزید تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔ اب وہ پھر حاملہ تھی، اس کی صحت اب مزید کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی، اسی لیے اس نے کام کرنے سے معذرت کر لی تھی”

اس واقعہ کے دو پہلو نہایت ہی افسوسناک ہیں۔ پہلا پہلو یہ کہ اکیسویں صدی میں بھی ہمارے معاشرے میں بیٹی کی پیدائش کو معیوب سمجھا جاتا ہے، دوسرا پہلو یہ کہ ہمارے ہاں عورت ذات ابھی بھی گھریلو تشدد کا شکار ہے۔

زمانہ جاہلیت میں بیٹی کی پیدائش کو باعث ندامت سمجھا جاتا تھا، بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ اسلام نے آ کر اس جاہلانہ عمل کو مکمل طور پر رد کیا۔ لیکن، اسلام کے چودہ سو سال بعد بھی ہم اس عمل کی مکمّل طور پر نفی نہیں کر پائے۔ ہمارے معاشرے میں آج بھی بیٹیاں بوجھ ہیں، ان کی پیدائش کو باعث شرمندگی سمجھا جاتا ہے۔ ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا۔ بیٹا اور بیٹی کے درمیان فرق تاعمر جاری رہتا ہے۔ لیکن، بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ بیٹی کی پیدائش کو عورت کی غلطی سمجھا جاتا ہے۔ عورت بیٹے کو جنم دے تو وہ عورت نہایت اچھی، لیکن اگر وہی عورت بیٹی کو جنم دے تو یہ اس کا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ بیٹی کی پیدائش پر، سزا بیٹی کے ساتھ ساتھ ماں کو بھی ملتی ہے۔ کھبی کھبار بیٹی کی پیدائش طلاق کا باعث بھی بن جاتی ہے۔

اس واقعہ کا دوسرا افسوسناک پہلو، عورت پر گھریلو تشدد ہے۔ کہیں نا کہیں عورت گھریلو تشدد کا شکار ہے۔ اس تشدد کا شکار عورتیں زیادہ تر مڈل کلاس یا لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہیں، جہاں پر عقل و شعور کی شدید کمی ہے۔ یہ وہ کلاس ہے جہاں مرد عورت کو صرف اپنا ملازم سمجھتے ہیں، جو بس ہر حکم بجا لائے اور ان کی ہاں میں ہاں ملائے۔ اگر عورت نے کھبی انکار یا ناں کر دی تو یہ مرد حضرات عورت پر تشدد کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔

اس ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارے معاشرے کی عورت تشدد کا شکار کیوں ہے؟ کیوں اس پر اپنی مرضی مسلط کی جاتی ہے؟ اس پر ظلم کے پہاڑ کیوں توڑے جاتے ہیں؟ بیٹی کی پیدائش کو کیوں معیوب سمجھا جاتا ہے؟ مجھے آج تک ان سوالات کے جواب نہیں ملے۔

میرے خیال میں اس کی تین وجوہات ہیں۔

پہلی وجہ تعلیم کی کمی اور شعور کا فقدان ہے۔ اپر سوسائٹی میں (جہاں تعلیم یافتہ لوگ زیادہ ہوتے ہیں) ایسے واقعات نسبتاَ کم پیش آتے ہیں۔ لیکن، جیسے ہی لوئر سوسائٹی (جہاں نسبتا لوگ کم تعلیم یافتہ ہوتے ہیں) میں آتے ہیں ایسے واقعات کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ ہو جاتا ہے۔

دوسری وجہ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری بھی ہے۔ جب مرد کو کام نہیں ملے گا، گھر میں فاقے ہوں گے، تو اس کا سارا غصہ اپنی بیوی پر ہی نکلتا ہے۔

تیسری اور سب سے اہم وجہ ہے “عورت بحثیت غلام”، زیادہ تر مرد اپنی بیویوں کو اپنے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں۔ ان پر افسروں کی طرح حکم چلانا چاہتے ہیں، ان سے بلاتعطل خدمات چاہتے ہیں۔ بدلے میں یہ اسے کچھ دینا بھی نہیں چاہتے، بس آپ نے نکاح کیا، آپ کو ایک ملازمہ مل گئی، جو آپ کا ہر حکم مانے گی۔ انکار کی صورت میں وہ تشدد کرتے ہیں۔ یہ وجہ سب سے زیادہ خطرناک ہے۔

ہمارے کالج کے ماہر نفسیات کے بقول، گھریلو تشدد میں صرف جسمانی ایذا نہیں آتا۔ ہر وہ عمل گھریلو تشدد میں آئے گا جو عورت کو جسمانی، نفسیاتی طور پر متاثر کرے، اسکے inner peace کو خراب کرے۔

ہمارے معاشرے میں ایک اور خطرناک ٹرینڈ عام ہو رہا ہے۔ اس ٹرینڈ کے مطابق، ہر خاندان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ پڑھی لکھی، ملازمت پیشہ بہو لے کر آئے۔ خود کا بیٹا چاہے کوئی کام نا کرتا ہو۔ ہر مہینے کے بعد، اس بیچاری سے اس کی تنخواہ لے لی جاتی ہے، اگر وہ انکار کرے تو اس پر تشدد کیا جاتا ہے۔ اس رجحان کا سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہماری بہن، بیٹی کو اس کے سسرال والے کچھ نا کہیں، اس پر کوئی زور زبردستی نا کریں، لیکن ہم خود دوسروں کی بہنوں، بیٹوں کو وہ عزت دینا ضروری نہیں سمجھتے، جو ہم اپنی بیٹیوں، بہنوں کے لئے توقع کرتے ہیں۔ ہمیں اس خوفناک ٹرینڈ کی حوصلہ شکنی کرنا ہو گی۔

پچھلی حکومت نے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین پر گھریلو تشدد کے خلاف بل بھی پیش کیے، نئے قوانین بھی متعارف کروائے گئے، لیکن صورتحال میں کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔

وطن عزیز میں آج بھی زیادہ تر عورتیں، گھریلو تشدد کا کسی نا کسی شکل میں شکار ہیں۔ آج بھی بیٹی کی پیدائش کو عورت کی غلطی خیال کیا جاتا ہے۔ آج بھی عورت کو کم تر خیال کیا جاتا ہے۔

ہماری جب نفسیات کی کلاس ہو رہی تھی اور ہمارا موضوع گھریلو تشدد تھا تو میں نے سر سے سوال پوچھا تھا کہ سر! جب عورت پر تشدد ہوتا ہے، وہ کیوں چپ چاپ سہتی رہتی ہے؟ وہ ایسے مرد کا گھر چھوڑ کیوں نہیں دیتی؟ وہ علیحدہ نیا گھر کیوں نہیں لے لیتی؟ تو سر کا دیا گیا جواب آج بھی مجھے یاد ہے، جواب یہ تھا کہ:

“بیٹا، اتنا آسان نہیں ہے، ہمارا معاشرہ عورت کو اتنا آزاد نا ہی کر سکتا ہے اور نا ہی دیکھ سکتا ہے”

اب سارے معاملے کا حل کیا ہے؟ قانون تو موجود ہے، لیکن اس پر عمل درآمد کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ حکومت اس قانون پر عملدرآمد کروانے کے لئے سنجیدہ بھی نہیں۔ اس کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے “قانون پر زبردستی عمل درآمد کروانا”۔ صرف قانون بنا دینے سے اب کام نہیں چلے گا۔ اب عملی طور پر کام کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ ضلعی سطح پر کمیٹیاں تشکیل دے جو اس قانون پر مکمّل عمل درآمد کروائیں۔ جو مرد بھی عورت پر تشدد کرے، اسے کڑی سے کڑی سزا دی جائے۔

مگر صرف سزا دینا کافی نہیں ہو گا، خواتین کو بھی اپنے حق کے لئے آواز بلند کرنا ہو گی۔ انہیں خاموشی توڑنا ہو گی، اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف اٹھنا ہو گا۔ اپنے حقوق کے لئے جنگ لڑنی ہو گی۔ ان سب کے ساتھ ساتھ، ہمیں بحثیت قوم، اپنے رویے بدلنے ہوں گے۔ ہمیں عورت کو اس کے جائز حقوق دینے ہوں گے۔ عورت کو حقیر جاننے والے کنسپٹ کو ختم کرنا ہو گا۔ ان کو ان کے فیصلے کرنے کی اجازت دینی ہو گی۔ ہمیں بیٹیوں کو بھی اتنی ہی محبت دینی ہو گی، جتنی ہم اپنے بیٹوں کو دیتے ہیں۔

عورت اور مرد ایک ہی گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ گاڑی کھبی بھی ایک پہیے پر نہیں چلے گی۔ دونوں پہیے برابر کام کریں گے تو گاڑی ٹھیک چلتی رہے گی۔ لیکن، جب ایک پہیہ ہی من مانی کرے گا تو گاڑی ٹھیک نہیں چلے گی اور حادثات کے خطرات بڑھ جائیں گے۔

بیٹیاں تو اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔ خدار، اپنی بیٹیوں اور بیویوں کو حقیر اور کم تر مت جانیں۔ ان کے ساتھ صلہ رحمی کے ساتھ پیش آئیں۔ اگر آپ میں محبت کرنے اور دینے کی ہمت نہیں، تو نا کریں لیکن کم از کم اپنی مردانگی دکھانے کے لئے ان پر تشدد ہرگز مت کریں۔

Tags: انسانی حقوقخواتینگھریلو تشدد
Previous Post

”حریم شاہ دفتر خارجہ میں صرف موبائل فون نہیں لائیں“

Next Post

آزادی مارچ سے متعلق اہم حکومتی فیصلہ

محمد شافع صابر

محمد شافع صابر

مضمون نگار، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز لاہور میں فائنل ائیر ایم بی بی ایس کے طالب علم ہیں۔

Related Posts

ہئیت مقتدرہ ‘پروجیکٹ 1985’ کے ذریعے اب کپتان کا راستہ روک رہی ہے

ہئیت مقتدرہ ‘پروجیکٹ 1985’ کے ذریعے اب کپتان کا راستہ روک رہی ہے

by حسنین جمیل
مارچ 28, 2023
0

جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء زوروں پر پہنچ چکا تھا۔ سماج میں جنرل ضیاء الحق کے خلاف نفرت عروج پر تھی...

طاقت کے عالمی سنگھاسن پہ پھر سے کمیونسٹ بلاک براجمان ہو رہا ہے؟

طاقت کے عالمی سنگھاسن پہ پھر سے کمیونسٹ بلاک براجمان ہو رہا ہے؟

by یوسف بلوچ
مارچ 27, 2023
0

ایک بات تو ہمیں برسوں کی طرح اس بار بھی پلے باندھ لینی چاہئیے کہ بین الاقوامی طور پر دو ممالک کی...

Load More
Next Post
مولانا کےآزادی مارچ کا غیر سرکاری، غیر حتمی نتیجہ

آزادی مارچ سے متعلق اہم حکومتی فیصلہ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In