میاں صاحب کی صحت کی تشویشناک صورتحال نے بہت سے ایسے سوالوں کو جنم دیا ہے، جو ہر لیگی کے ذہن میں آتے ہیں۔ لیکن، کوئی ان سوالات کو زبان پر نہیں لاتا۔ میاں صاحب کی اس حالت میں بہت واضح ہے کہ کون کس سائیڈ پر کھڑا ہے۔
مگر اصل سوال یہ ہے کہ وہ سب کہاں ہیں؟ جو میاں صاحب کے اقتدار کے دنوں میں ان کے دائیں بائیں، آگے پیچھے پھرتے رہے۔ لیکن آج ان چند لوگوں میں سے کوئی ایک بھی اس مشکل گھڑی میں پاس پھٹکتے بھی نہیں نظر آتے۔
وہ تمام لوگ کہاں ہیں؟ جن کی شہہ پر میاں صاحب اور مریم نواز نے اس مشکل رستے پر قدم رکھا۔ جس میں میاں صاحب کو شریک حیات کی موت جیسا نقصان بھی قید میں سہنا پڑا۔ وہ تمام لوگ جو میاں صاحب کو مفاہمت سے باز رکھتے رہے، یہ جانتے بوجھتے کہ اداروں سے جنگ نہ ملک کے مفاد میں ہو گی اور نہ میاں صاحب کے۔
اب کہاں ہیں؟ جب میاں صاحب اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ہم سب بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ میاں صاحب کے لیے ریلیف اداروں سے ٹکراؤ میں نہیں بلکہ صرف مفاہمت اور بات چیت سے مل سکتا ہے۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ کیا ہم میاں نواز شریف کی زندگی کی قیمت پر یہ جنگ لڑیں گے؟
مفاد پرستوں نے میاں صاحب کے قریبی رشتوں کو انتہائی مشکل میں لا کھڑا کیا ہے۔ ان کے چھوٹے بھائی کی ان کے لیے کی جانے والی ہر ریلیف کی کوشش کو بزدلی اور ڈیل کا نام دے دیا جاتا ہے، یہ جانتے ہوئے بھی کہ شہباز شریف کس مشکل صورتحال میں ہیِں۔
آج شہباز شریف اور ان کے ہمنوا نواز شریف کی بقا اور سلامتی کی جنگ لڑ رہے ہیں مگر وہ سب کہاں ہیں جن کو نواز شریف کے نام پر سینیٹ، اسمبلیوں میں عزت ملی؟
وہ کدھر ہیں جو دورِ حکومت تک تو نیب کی چھوٹی موٹی پیشیوں پر پہنچتے رہے لیکن آج کہیں دور دور تک نظر نہیں آتے۔
برے وقت میں ہی اپنے اور پرائے کی پہچان ہوتی ہے۔ اللہ میاں صاحب کو صحت عطا کرے اور اس قابل کرے کہ وہ اپنے دوست اور دشمن کی پہچان کر سکیں اور جو لوگ صرف اپنے ذاتی مفاد کی خاطر میاں صاحب کے ساتھ رہے انہیں دوبارہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کا موقع نہ دیں ۔ باقی میاں صاحب خود عقل مند اور تجربہ کار ہیں ۔