• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, اگست 17, 2022
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

کیا بایاں بازو بدل رہا ہے؟

ڈاکٹر خلیل احمد by ڈاکٹر خلیل احمد
دسمبر 2, 2019
in بلاگ, تجزیہ, جمہوریت, سیاست
5 0
0
کیا بایاں بازو بدل رہا ہے؟
26
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

اس نومبر میں الحمرا لاہور میں معنقد ہونے والا ’’فیض میلہ‘‘ ’’فیض‘‘ سے زیادہ میلہ ٹھیلہ تھا۔ مراد یہ کہ ایک ڈھیلے ڈھالے بائیں بازو کا میلہ تھا۔ جیسا کہ ملک میں تفریح ایک نایاب شے بن گئی ہے، یہ موقع اس کمی کو بھی پورا کر رہا تھا۔ مختلف ہال کمروں میں جو سیشن ہو رہے تھے، وہ اپنی جگہ۔ سب سے بڑھ کر ہجوم، ہال نمبر 2 کے سامنے تھا۔ پتا چلا فلم سٹار، ماہرہ خان آ رہی ہیں۔

مختلف ہال کمروں میں کیا گفتگو ہو رہی تھی، معلوم نہیں۔ جو لوگ جنھیں سننا چاہتے تھے، انھیں سننے آئے تھے۔ خود میرا اور دوستوں کا تاثر یہ تھا کہ کسی کے پاس کوئی نئی بات نہیں۔ باربار وہی کچھ دہرایا جا رہا ہے، جو پہلے بھی باربار کہا جا چکا ہے۔ پھر یہ کہ بولنے والے لوگ بھی وہی ہیں، گنے چنے نام، جو ہر ’’میلے‘‘ اور ہر ’’مباحثے‘‘ میں بلائے جاتے ہیں۔

RelatedPosts

روایتی پارٹیاں ناکام ہو چکیں، ملک کو تیسری قوت کی ضرورت ہے

بینظیر شہید پر بائیں بازو کی ناجائز تنقید اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط کرتی ہے

Load More

باہر ایک لان میں کتابوں کے سٹال تھے۔ وہی کتابیں، وہی مصنف، جنھیں باربار چھاپا جا رہا ہے۔ جیسے کہ ان مصنفوں نے ’’حرفِ آخر‘‘ کہہ دیا ہے۔

دوسرے لان میں کھانے پینے کے سٹال تھے۔ وہاں خاصی بھیڑ تھی۔ چھوٹے لان میں نوجوان لڑکے لڑکیوں کا ایک گروہ گا بجا رہا تھا۔

’’سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے، دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔‘‘

یہ وہی گروہ تھا، جس کی ویڈیو بعد میں سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی اور انھیں خوب داد ملی۔ اور جن کے خلاف پروپیگنڈا ویڈیو بھی جاری ہوئیں۔ اور غالباً یہی گروہ تھا، جو بعدازاں یہ نعرے بھی لگا رہا تھا: ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے۔‘‘ اور ’’انقلاب، آئے گا، انقلاب، آئے گا۔‘‘

وہیں ’’طلبہ یکجہتی مارچ‘‘ کے پرچے بھی تقسیم کیے جا رہے تھے۔ 29 نومبر کو یہ مارچ بھی منعقد ہو گیا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس ’’طلبہ یکجہتی مارچ‘‘ پر بائیں بازو کی چھاپ نمایاں تھی۔ ’’نمایاں‘‘ کہہ کر، میں اس بات کی گنجائش رکھنا چاہ رہا ہوں کہ اس مارچ میں دوسرے کچھ مختلف نظریات کے حامل طلبہ وغیرہ بھی شامل ہوں گے۔

نوجوانوں اور طلبہ و طالبات کو اور بائیں بازو کو مبارک ہو کہ اس نے طاقت کا ایک بڑا مظاہرہ کیا۔ یہ خوشی منانے کا بڑا موقع ہے۔ خوشی منائیں۔ لیکن یہ ذرا رکنے، ٹھہرنے اور سوچنے کا موقع بھی ہے۔ رکیں، ٹھہریں اور سوچیں۔

سوچیں کہ کیا اس مارچ کے ذریعے جو مطالبات پیش کیے گئے، وہ صرف طلبہ یونین پر پابندی ہٹانے سے حل ہو جائیں گے۔ یہ مطالبات، اپنی نوعیت میں سیاسی ہیں اور اپنے حل کے لیے کسی سیاسی جماعت کے پلیٹ فارم کے منتظر رہیں گے۔

بائیں بازو کو ’’تیز ہو تیز ہو، جدوجہد تیز ہو‘‘ کے نعرے کے سحر سے باہر نکلنا چاہیے۔ سوچنا چاہیے کہ کس چیز کے لیے جدوجہد۔ کس کے لیے جدوجہد۔ اور کیسے جدوجہد۔

چونکہ میرا تعلق خود بائیں بازو سے رہا ہے اور میں نے بابا رفعت حسین کے نام سے پہچان رکھنے والے ’’پیپلز لیبر فرنٹ‘‘ کے ساتھ بائیں بازو کی عملی سیاست میں حصہ بھی لیا، اور گو کہ اب میں بائیں بازو کی ’’آئیڈیالوجی‘‘ سے قطعاً وابستہ نہیں، بلکہ کسی بھی آئیڈیالوجی سے وابستہ نہیں، لیکن اس تحریک کے ساتھ کچھ نہ کچھ تعلقِ خاطر اب بھی موجود ہے۔

مگر یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ بائیں بازو میں جتنے بھی قائدین مختلف گروہوں کی سربراہی کر رہے ہیں، ان میں اس بات کا ذرا بھی ادراک نہیں کہ وہ جس معاشرے اور جس ریاست اور سیاست کے بیچ موجود ہیں، اس پر بھی کچھ توجہ دے لیں۔

بلکہ یہ ایک پرانا ’’شکوہ‘‘ ہے کہ بائیں بازو نے اس معاشرے کو درخورِاعتنا سمجھا ہی نہیں۔ بس ایک ’’نظریہ‘‘ اٹھایا اور پاکستان پر اس کا اطلاق کر دیا۔ یہاں کے لوگوں کی تہذیب و ثقافت کیا ہے، ان کے مذہبی اعتقادات کس نوعیت کے ہیں، خود یہ معاشرہ ترقی و تمدن کے کس مرحلے پر ہے، یہاں طبقات کی تشکیل کس انداز کی ہے، وغیرہ۔ ان کے بارے میں کسی نے سوچنا گوارا ہی نہیں کیا۔ بارہا یہ کہا گیا کہ بایاں بازو ’’رومانویت‘‘ سے مغلوب رہا ہے۔ اس ’’رومانویت‘‘ کا اظہار ’’طلبہ یکجہتی مارچ‘‘ سے بھی عیاں ہے۔ بلکہ اسے ’’انقلابی رومانویت‘‘ کا نام دیا گیا۔ سمجھا یہ گیا کہ چونکہ بےمایہ لوگوں کی بات کی جا رہی ہے۔ لہٰذا، بےمایہ لوگ بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ کچے دھاگے سے بندھے چلے آئیں گے۔

یہ ایک فسطائی رجحان ہے، جس کا اعلانیہ اظہار عمران خان کی جماعت نے کیا۔ جب دو انتخابات میں انھیں اکثریت نہیں ملی (گو کہ اکثریت تو جولائی 2018 کے انتخابات میں بھی نہیں ملی۔) تو لوگوں کو ’’بیوقوف اور جاہل‘‘ کہا گیا۔ بائیں بازو نے بھی لوگوں کے بارے میں ایسی باتیں کی ہیں۔

یہاں بائیں بازو کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ لوگوں کا اعتماد اور بھروسہ کیسے جیتا جائے۔ بجائے یہ رویہ اپنانے کے کہ آپ لوگوں پر کوئی احسان کرنے جا رہے ہیں۔ احسان کرنے اور احسان جتانے کی سیاست کریں گے، تو آپ پر کوئی اعتماد نہیں کرے گا۔ اشد ضروری ہے کہ بایاں بازو، رومانویت اور انقلابی رومانویت سے جان چھڑائے اور حقیقت پسند بنے۔

یہ سوال خود مجھے حیران کرتا ہے کہ اس وقت بایاں بازو کسی فلسفے یا سیاسی فلسفے کا حامل بھی ہے یا نہیں۔

گذشتہ برس جب لاہور میں ’’پشتون تحفظ موومنٹ‘‘ کا جلسہ ہوا، تو یہ بڑی جرآت اور خوشی کی بات تھی کہ بائیں بازو کی مختلف جماعتوں کے ایک اتحاد نے ان کے ساتھ اشتراک کیا۔ مگر میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ آیا بائیں بازو کی یہ جماعتیں اپنی اشتراکی آئیڈیالوجی کو ترک کر چکی ہیں۔ یا یہ کہ اشتراکیت (سوشل ازم) میں ’’حقوق‘‘ کی گنجائش پیدا کر لی گئی ہے۔ وگرنہ بائیں بازو کا کسی ایسی تنظیم کا ساتھ دینا ناقابلِ فہم ہے، جس کا واحد مقصد، آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق کا حصول ہے۔

اس ’’طلبہ یکجہتی مارچ‘‘ میں جو نعرے اور کتبے لہرائے گئے، وہ بھی دیکھ لیجیے:

’’سرخ ہو گا، سرخ ہو گا، ایشیا سرخ ہو گا۔ لینن کے افکار سے، ایشیا سرخ ہو گا۔ ماؤ کے اعمال سے، ایشیا سرخ ہو گا۔‘‘ (یہ نعرے کراچی کے مارچ سے تعلق رکھتے ہیں۔)

یہ ایک اور طرح کا اعتقاد ہے۔ بھئی، کیا کہنا چاہ رہے ہیں، کیا کرنا چاہ رہے ہیں۔ رکیں اور سوچیں۔ پھر آگے بڑھیں۔

بائیں بازو کی بڑی جماعت، ’’عوامی ورکرز پارٹی‘‘ کو لے لیجیے۔ وہی پرانی چال ڈھال۔ وہی پرانی سوچ۔ وہی سرمایہ داری، جاگیرداری اور امریکی سامراج کے خلاف نعرے بازی۔ وہی طبقاتی جدوجہد کا اعادہ۔ بائیں بازو کی نمایاں شخصیت، فاروق طارق کو لے لیجیے۔ وہی پرانی بےمعنی باتیں۔ فیس بُک پر ان کی ٹائم لائن پر نظر ڈال لیں۔ ان کی گفتگو میں کسی مواد کی تلاش عبث ہے۔   تو بائیں بازو سے یہ سوال پوچھنا نہایت ضروری ہے یہ وہی پرانا بایاں بازو ہے، یا کچھ بدلا ہے۔ اگر کچھ بدلا ہے تو نظر کیوں نہیں آ رہا۔

بلاشبہ ایک تحریک موجود ہے۔ بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان میں ایک ایسا سیاسی خلا موجود ہے، جسے ہر کوئی، اچھا ہو یا برا، پُر کر سکتا ہے۔ لیکن اگر بایاں بازو ’’اچھا‘‘ بننے کی کوشش کر لے، تو کوئی برا تو نہیں۔

مختصر یہ کہ آج بھی بائیں بازو کا جو بیانیہ سامنے آ رہا ہے، وہ وہی فرسودہ، اور گیا گزرا رونا دھونا ہے۔ کہیں سے کوئی ایسی خبر نہیں آ رہی کہ بائیں بازو میں کہیں کسی گوشے میں خودتنقیدی ہو رہی ہو اور نئی حقیقتوں کا احساس و ادراک موجود ہو۔

بایاں بازو بدل نہیں رہا۔ بالکل نہیں۔

Tags: بائیں بازو کی سیاستپاکستان کی سیاستڈاکٹر خلیلطلبہ تحریک
Previous Post

کوک سٹوڈیو کی اقساط یوٹیوب پر جاری کیوں نہیں کی جا رہیں؟

Next Post

میں کھڑا ہوں اصولوں کے ساتھ

ڈاکٹر خلیل احمد

ڈاکٹر خلیل احمد

Related Posts

ایک چبھتی ہوئی یاد اور۔۔۔زخمی صدا، گُل ناز کوثر کی نظمیں’’خواب کی ہتھیلی پر‘‘

ایک چبھتی ہوئی یاد اور۔۔۔زخمی صدا، گُل ناز کوثر کی نظمیں’’خواب کی ہتھیلی پر‘‘

by طاہر اصغر
اگست 17, 2022
0

میں ابھی تک کچھ گیتوں کے سحر میں ہوں۔۔۔ مدھو بالا کا مسکراتا ہوا سراپا اور لہرتا ہوا مست گیت ’آئیے مہرباں...

کراچی میں پانی کا شدید بحران کیوں ہے؟

کراچی میں پانی کا شدید بحران کیوں ہے؟

by محمد توحید
اگست 17, 2022
0

شہر کی آبادی و گنجانیت کے ساتھ موسمیاتی تبدیلیاں اوربڑھتاہوا درجہ حرات پانی کی طلب میں اضافے کا باعث ہیں جبکہ دوسری...

Load More
Next Post
پیپلز پارٹی کا یومِ تاسیس: بلاول کو پرانی سیاست سے پیچھا چھڑانا ہوگا

میں کھڑا ہوں اصولوں کے ساتھ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Imran Khan lobbying US CIA Station chief

عمران خان کی لابنگ فرم کا سربراہ پاکستان میں CIA کا سابق سٹیشن چیف ہے

by نیا دور
اگست 17, 2022
0

...

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

by عمر اظہر بھٹی
اگست 13, 2022
0

...

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

by عرفان رضا
اگست 13, 2022
1

...

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

by عبداللہ مومند
اگست 13, 2022
0

...

Salman Iqbal

وہ 5 کیسز جن میں ARY کو برطانیہ میں پراپیگنڈا اور ہتک عزت کا مجرم ٹھہرایا گیا

by نیا دور
اگست 10, 2022
0

...

میگزین

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

by عبداللہ مومند
اگست 8, 2022
0

...

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

by حسن نقوی
اگست 8, 2022
0

...

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

by بشیر ریاض
جولائی 11, 2022
0

...

Abdul Sattar Tari

عبدالستار تاری – جس کے پائے کا طبلہ نواز آج دنیا میں موجود نہیں

by محمد شہزاد
جولائی 7, 2022
1

...

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,738
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

Naya Daur Urdu

27 minutes ago

Naya Daur Urdu
چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے ایف آئی اے کو اپنے تحریری جواب میں لکھا کہ میں آپکو جوابدہ ہوں نہ ہی معلومات فراہم کرنے کا پابند البتہ دو دن میں نوٹس واپس نہ لیا تو قانون کے تحت آپ کے خلاف کارروائی کروں گا۔ ... See MoreSee Less

عمران خان کا ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے کے نوٹس کا جواب دینے سے انکار

urdu.nayadaur.tv

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں ایف آئی اے کے نوٹس پر تفصیلات دینے سے انکار کر دیا۔ میڈیا...
View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

Naya Daur Urdu

43 minutes ago

Naya Daur Urdu
"گُل ناز کوثر نے اپنی روایت سے کچھ اس طور انحراف کیا ہے کہ شعروادب کی دنیا میں نئی جہت اور اسالیب سے ناطہ جوڑا ہے۔ اُس کی شعری لفظیات منفرد ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ نظم کی زبانی کوئی کہانی سنا رہی ہے۔ ایسی کہانی جس میں کوئی ہیرو یا ہیروئن نہیں۔ ایک خودکلامی ہے یا حیرت کدہ آباد ہے۔" ... See MoreSee Less

ایک چبھتی ہوئی یاد اور۔۔۔زخمی صدا، گُل ناز کوثر کی نظمیں’’خواب کی ہتھیلی پر‘‘

urdu.nayadaur.tv

میں ابھی تک کچھ گیتوں کے سحر میں ہوں۔۔۔ مدھو بالا کا مسکراتا ہوا سراپا اور لہرتا ہوا مست گیت ’آئیے مہرباں شوق س...
View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In