• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعہ, جنوری 27, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

جج کیلکولیٹر نہیں ہو سکتے

ڈاکٹر خلیل احمد by ڈاکٹر خلیل احمد
دسمبر 23, 2019
in انصاف, بلاگ, تجزیہ, جمہوریت, حکومت, سیاست
2 0
0
پرویز مشرف کیس: ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے استعفیٰ دے دیا
13
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

ایک واضح نقطۂ نظر اور مستقل مزاجی کے ساتھ مختلف مواقع پر اس کا یکساں اطلاق پاکستان میں نایاب چیزوں میں سے ہے۔ مثلاً جس چیز کے لیے بڑی شد و مد سے مطالبہ کیا جا رہا ہو گا، جب وہ چیز ہونے لگے گی، تو اتنی ہی شد و مد سے اس کی مخالفت شروع ہو جائے گی۔

میرا اشارہ عمران خان کی طرف بالکل نہیں، کیونکہ کچھ لوگوں میں یہ استعداد ہی نہیں ہوتی کہ وہ ایک واضح اور متضادات سے پاک نقطۂ نظر بنا سکیں۔

RelatedPosts

پے در پے مارشل لا، کمزور جمہوریت؛ پاکستان اور ترکی میں بہت کچھ مشترک ہے

اسٹیبلشمنٹ نے اپنی شکتیاں عمران خان میں منتقل کر دیں یا شکتی مان پی ٹی آئی میں شامل ہو چکا؟

Load More

میرا اشارہ ایک طرف ان دانش وروں کی طرف ہے، جو اخبارات اور ٹی وی چینلز پر اپنے ’’علم کے موتی‘‘ بکھیر رہے ہیں۔ اور دوسری طرف وہ دانش ور ہیں، جنھیں سوشل میڈیا نے بولنے، لکھنے اور تنقید کرنے کی آزادی عطا کر دی ہے۔ بلکہ ایک تیسری سمت بھی ہے، جو گفتگو اور بیانیہ علم سے تعلق رکھنے والے دانش وروں پر مشتمل ہے۔

ان تینوں قسم کے دانش وروں کے درمیان کوئی بہت زیادہ اختلاف نہیں۔ سب کا طرزِ استدلال ایک جیسا ہے، یعنی کوئی طرزِ استدلال نہیں۔ ان کا بڑا مقصد فریقِ مخالف کو نیچا دکھانا اور کج بحثی کر کے معاملے اور مسئلے کو پیچھے دھکیلنا ہے۔

یہی کچھ آئین شکن اور فوجی آمر، جینرل (ر) پرویز مشرف سے متعلق خصوصی عدالت کے فیصلے کے ساتھ ہو رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ ایک تاریخی فیصلے کو سنگِ میل مان کر ریاست کی سمت کو درست کیا جائے، اس فیصلے کو بھی کج بحثی کی چکی میں پیسا جا رہا ہے۔

اس تحریر میں صرف ایک نکتے پر توجہ دی جائے گی۔ یعنی پیرا 66 سے متعلق کج بحثی۔ ہوا یہ ہے کہ اصل تنازعے کو علاحدہ رکھ کر پیرا 66 کو ’’تنازعے کی جڑ‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ یہ بات بالکل عیاں ہے کہ اگر یہ پیرا نہ ہوتا، تو کوئی اور پیرا یا کوئی اور بات یا کوئی اور قضیہ اٹھا لیا جاتا، اور اس سے یہی کام لیا جاتا، جو پیرا 66 سے لیا جا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ طاقت ور حلقوں کو، جو بلاشرکت غیرے غاصبانہ انداز میں آئینی اور قانونی اختیار کا استعمال کرتے رہے ہیں، یہ فیصلہ کسی صورت قبول نہیں، اور نہ ہی ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے کی مخالفت ہونی ہی ہونی ہے۔ اور ہو رہی ہے۔

اس پیرے پر جتنے بھی اعتراضات کیے جا رہے ہیں، ان میں سے اگر کوئی اعتراض قابلِ توجہ ہے تو وہ یہ ہے: اس نوع کی سزا، آئین یا قانون میں کہاں درج ہے؟

یہ بالکل اسی قسم کا اعتراض ہے، جسے پاکستان کے تمام تعلیمی و تدریسی حلقوں میں پہلے ہی تسلیم کیا جا چکا ہے۔ امتحان دینے والے طلبہ اکثر امتحانی پرچے کے بارے میں ’’آوٹ آف سیلیبس‘‘ ہونے کا معاملہ اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ یعنی امتحان میں جو سوالات دیے گئے ہیں، ان سے متعلق جواب نصاب میں موجود نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس اعتراض کو درست اور حقیقی مان لیا گیا ہے، اور جہاں یہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے، وہاں امتحانی پرچہ تبدیل کروا دیا جاتا ہے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ کے حکم میں پیرا 66 پر یہ اعتراض اصل میں اسی نوعیت کا ہے۔ یعنی یہ کہ قانون کی کتابوں میں اس سزا کا کوئی ذکر نہیں۔ جیسا کہ تعلیمی حلقوں میں شاید ہی کسی نے یہ پوچھا ہو کہ کیا علم، محض وہی علم ہے، جو نصاب کی کتابوں میں درج ہو گیا، یا علم میں وہ علم بھی شامل ہے، جو نصاب سے باہر کتابوں میں درج ہے۔

پیرا 66 کہتا ہے کہ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور/مجرم کو پکڑنے کی ہر ممکن کوشش کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ قانون کے مطابق سزا دی جائے اور اگر وہ مردہ صورت میں ملے، تو اس کی لاش کو گھسیٹ کر ڈی چوک اسلام آباد پاکستان لایا جائے اور تین روز تک پھانسی پر لٹکایا جائے۔

جسٹس شاہد کریم نے اس پیرے سے اختلاف کیا ہے۔ خود جسٹس وقار نے پیرا 67 میں لکھا ہے: حقیقتاً حکم کے اس حصے اور سزا کی اس تعمیل کا تعین کہیں موجود نہیں، لیکن چونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ ہے اور موت کی سزا مجرم کو اشتہاری قراد دینے کے بعد اس کی عدم موجودگی میں سنائی گئی ہے، لہٰذا یہ سزا کیسے دی جائے گی، اوراس کی موت کی صورت میں، یہ سوال پیدا ہو گا کہ سزا پر عمل درآمد کیسے کیا جائے، تو اس حد تک پیرا 65 دی گئی سزا کا انداز طے کرتا ہے۔

بالعموم، ہر مقدمہ اور اس کے حقائق اور مضمرات منفرد اور یکتا ہوتے ہیں، اور ججوں کو قانون اور نظیروں کے ساتھ ساتھ اپنی دانائی اور بصیرت پر بھروسہ کرنا پڑتا ہے۔ اسی طرح، جب مقدمات کو فیصل کیا جاتا ہے، تو جرم اور اس کی نوعیت و شدت کو سامنے رکھتے ہوئے، ججوں کو قانون میں دی ہوئی سزا اور اس پر عمل درآمد دونوں پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔ مراد یہ کہ قانون کا لفظی اطلاق مقصود نہیں ہوتا، بلکہ قانون کا معنوی اطلاق کیا جاتا ہے۔ یعنی اس چیز پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، جو قانون کا منشا، اور قانون و انصاف کا مقصود ہوتا ہے۔

یہی وہ چیز ہے، ججوں سے جس کا تقاضا عینِ انصاف قرار دیا جاتا ہے۔ نہ کہ قانون کا میکانکی اطلاق۔ کیونکہ اگر ایسا مقصود ہو تو پھر قانون کی کتابوں کو کمپیوٹر میں فیڈ کیا جا سکتا ہے، اور فیصلہ کرنے کا کام کمپیوٹر کے سپرد کیا جا سکتا ہے۔

جو لوگ پیرا 66 پر اعتراض کر رہے ہیں، یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کی فہم یہی ہے کہ ججوں کو ایک کیلکولیٹر کی طرح کام کرنا چاہیے۔ یعنی ان کے سامنے ملزم کا جو جرم رکھا گیا ہے اور جو جرم ملزم پر ثابت ہو گیا ہے، قانون میں اس کی جو سزا تجویز کی گئی ہے، وہی سزا سنا دی جائے۔ قصہ ختم۔ اس کا مطلب یہی بنتا ہے کہ پھر عدالتیں بند کر دی جائیں اور انصاف فراہم کرنے کا کام کمپیوٹر جیسی مشینوں کو سونپ دیا جائے۔

اس سلسلے میں بچوں کے قتل میں ملوث ایک شخص جاوید اقبال کے مقدمے کا ذکر بھی بہت ہو رہا ہے۔ اس مقدمے میں بھی جرم کی شدت کو سامنے رکھتے ہوئے، سزا کی شدت کو بڑھایا گیا تھا، جس کا قانون کی کتابوں میں کوئی ذکر موجود نہیں۔ تب تو کسی نے اس سزا پر اعتراض نہیں کیا تھا۔

جہاں تک قانون کے معنوی اطلاق یا قانون کی روح کا معاملہ ہے، تو اس کی تعمیل اسی صورت میں ہو سکتی ہے، جب جج اپنی دانائی اور بصیرت کو استعمال کریں گے۔ اس کا مطلب یہ قطعاً نہیں کہ وہ قانون کے لفظی بیان سے صرفِ نظر کر لیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قانون کی منشا اور انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلے اور سزا کی نوعیت کا تعین کریں گے۔ یعنی قانون کا منشا ہے قانون کے مفہوم اور اس روح کا اطلاق۔

خود جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم دونوں نے اپنے فیصلے میں ’’سنگین غداری‘‘ کی دفعہ سے طویل بحث کی ہے۔ انھوں نے پاکستان کے آئین میں اس دفعہ کے مقصد اور منشا کو کھول کر بیان کیا ہے۔ اور سنگین غداری کی دفعہ 6 کے ہر لفظ اور اس کے معنی پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ انھوں نے پاکستان میں مارشل لا اور نظریۂ ضرورت کی تاریخ کو بھی بیان کیا ہے۔ فیصلے میں شامل یہ تمام پس منظر سنگین غداریک کے جرم کی شدت کو سامنے لاتا ہے۔ خود آئین اس جرم کو سب سے بڑا جرم اور اس کی سزا موت یا عمرقید قرار دیتا ہے۔

اس ضمن میں آخری بات یہ کہی جا سکتی ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں آئین کو اصلاً ’’کاغذ کا ٹکڑا‘‘ اور ایک کھلونا سمجھا گیا، وہاں اس کی سیادت، حاکمیت اور بالادستی کو قائم کرنے کی خاطر اس کا بے رحم اطلاق نہایت ضروری ہے۔ اور جیسا کہ اوپر کہا گیا، جج کیلکولیٹر کی طرح کام نہیں کرتے، نہ کر سکتے ہیں، یعنی جج بھی اسی معاشرے اور سیاسیہ کا حصہ ہیں، جہاں ریاستی اشرافیہ کے طاقت ور طبقات نے سات دہائیاں گزرنے کے باوجود آئین اور قانون کو ایک مذاق سمجھا ہوا ہے، وہاں ’’سنگین غداری‘‘ سے متعلق آئین کی دفعہ کا اطلاق اتنی ہی شدت سے کیا جانا اشد ضروری ہے، جتنی دیدہ دلیری اور چوری اور ’’سینہ زوری جیسے انداز‘‘ میں اس کا مضحکہ اڑایا گیا ہے۔

پیرا 66 اس آئین کو، جسے نہ صرف ’’کاغذ کا ایک ٹکڑا‘‘ کہا گیا، بلکہ عملاً اسے ’’کاغذ کا ایک ٹکڑا‘‘ بنا بھی دیا گیا، ایک زندہ اور جیتا جاگتا آئین بنا دیتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس پیرے پر حقیقتاً عمل درآمد ہوتا ہے، یا نہیں، یا سپریم کورٹ اس کی شدت کو زائل کر دیتا ہے، لیکن اس پیرے کے الفاظ اور مفہوم میں جو قوت پوشیدہ ہے، وہ پہلے ہی برسرِ عمل آ چکی ہے۔ یہ اس ’’دیدہ دلیری‘‘ کو بہت گہرائی تک زخمی کر چکی ہے، جو اب تک آئین اور آئین کی حاکمیت کے ساتھ برتی جاتی رہی ہے۔

Tags: پاکستانپرویز مشرّفجسٹس وقار سیٹھعدلیہ
Previous Post

ایک پیج پر کوئی کیا رہتا جب ورق ہی پھٹ گیا

Next Post

سکالر شپ نہ ملنے پر قبائلی اضلاع کے ہزاروں طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا

ڈاکٹر خلیل احمد

ڈاکٹر خلیل احمد

Related Posts

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 26, 2023
0

16 سال قبل میں محمد نواز شریف کے ساتھ ان کے خاندان کے مشہور پارک لین فلیٹس میں بیٹھا جیو نیوز کے...

علی وزیر اور راؤ انوار کے لئے ملک میں الگ الگ قانون ہے

علی وزیر اور راؤ انوار کے لئے ملک میں الگ الگ قانون ہے

by طالعمند خان
جنوری 26, 2023
0

پاکستان میں فوجی اسٹیبلشمنٹ کی شروع دن سے ایک ہی پالیسی رہی اور وہ ہے؛ 'ہم یا کوئی نہیں'۔ لیکن اب حالات...

Load More
Next Post
سکالر شپ نہ ملنے پر قبائلی اضلاع کے ہزاروں طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا

سکالر شپ نہ ملنے پر قبائلی اضلاع کے ہزاروں طلبہ کا مستقبل داؤ پر لگ گیا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 26, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In