بی بی سی کے مطابق مبینہ طور پر قتل کر دی جانے والی 18 سالہ رمشا کے والد غلام یاسین نے متعقلہ تھانے میں رپورٹ درج کروائی ہے جس میں انہوں نے موقف اپنایا ہے کہ وہ محنت مزدوری کرتے ہیں ۔ جبکہ انھوں نے اپنی 18 برس کی بیٹی رمشا کو چند ماہ قبل ملزم ڈاکر محمد علی کے گھر پر 8 ہزار روپے ماہانہ پر ملازمت کروائی تھی۔
پولیس رپورٹ کے مطابق ملزم ڈاکٹر کھاریاں کینٹ میں ایک کلینک چلاتا ہے۔ مبینہ مقتولہ کے والد کی اس عرصے کے دوران ان کی اپنی بیٹی سے صرف ایک مرتبہ ہی ملاقات ہوئی ہے۔
ملزم ڈاکٹر محمد علی سے منسوب بیان کے مطابق ان کا رمشا کی موت میں کوئی ہاتھ نہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ کچھ دن قبل رمشا کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اسے کھانسی کی شکایت تھی جبکہ اس کے ساتھ ساتھ اسکا بلڈ پریشر کافی کم تھا۔ اور یہی اس کی موت کی وجہ بنا۔
ڈاکٹر محمد علی کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کے پیش نظر وہ رمشا کو علیحدہ کمرے میں بھی رکھ چکے تھے۔ اس حوالے سے رمشا کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ ملزم چند ساتھیوں کے ساتھ انکے گاؤں رمشا کی میت لے کر پہنچے اور کرونا کا بتا کر رمشا کے والد سمیت کسی کو بھی اسکا دیدار نہیں کرنے دیا۔ ڈاکٹر علی ان تمام الزامات سے انکاری ہیں۔