جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو اردو میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 23 سالہ دوائیوں کے تاجر عادل کو معمولی بخار ہوا اور وہ اپنے محلے پیر دل کے ایک ڈاکٹر کے پاس چلا گیا۔ بخارکی شدت میں کمی نا ہوئی تو اس نے دوسرے ڈاکٹر کی کلینک کا رخ کیا لیکن بخار کے ساتھ گلہ بھی خراب ہونے لگا اور پھر چوتھے دن سانس میں بھی تکلیف ہونے لگی۔
عادل نے بتایا کہ سانس کی تکلیف کے ساتھ ہی میرے ذہن میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگیں، میں نے سنا ہوا تھا کہ جو کرونا میں مبتلا ہوجائے تو اس کا بچنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال کے پیش نظر پہلے مجھے نارتھ ویسٹ ہسپتال حیات آباد پشارو لایا گیا، جہاں ڈاکٹرز نے میری ٹریول ہسٹری کا پوچھا اور میری علامات کو دیکھتے ہوئے مجھے پولیس ہسپتال پشاور لایا گیا، جہاں مجھے بتایا گیا کہ مجھے کرونا ہے۔
عادل آفردی نے بتایا کہ بیماری کا سن کا خوف طاری ہوا، مجھے بیماری سے زیادہ اس بات کا خوف تھا کہ اگر میں مر گیا تو میری صورت بھی کسی کو نہیں دکھائی جائے گی۔ میرے گھر والے میرا آخری دیدار نہیں کر پائیں گے اور میرے نماز جنازہ اور تدفین میں بھی کوئی نہیں ہوگا۔ یہ خیال مجھے خوف زدہ کر رہا تھا۔
عادل نے مزید بتایا کہ اس بیماری کا سماجی خوف اتنا ہے کہ میں نے اپنی امی اور بیوی سے اس بات کو چھپا کر رکھا۔ جب میرے گھر کو قرنطینہ کیا گیا تو ان کو معلوم ہوگیا لیکن میں نے انہیں فون پر تسلی دی کہ میں ٹھیک ہوجاؤں گا کیونکہ یہ بیماری بوڑھے اور پہلے سے بیمار افراد کے لیے خطرناک ہے، میرے لیے نہیں۔
آئیسولیشن وارڈ میں گزارے ہوئے دنوں کے حوالے سے عادل نے کہا کہ میرے پاس ڈاکٹرز اچھے تھے اور ان کے پاس سارا حفاظتی سامان بھی تھا لیکن اس کے باوجود تنہا ایک ہی جگہ کئی دن گزارنا بہت مشکل ہے۔ میں بیان نہیں کر سکتا کہ وہ دن میں نے کیسے دیواریں تک تک کے گزارے ہیں۔ کبھی فون کرتا، کبھی فیس بک استعمال کرتا اور وقت تھا کہ گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔
عادل آفریدی اب صحت یاب ہو چکے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ مجھے ایسا لگتا ہے کہ مجھے ایک نئی زندگی مل گئی ہے۔ ہر چیز نئی نئی لگتی ہے۔ مجھے دس دن قرنطینہ میں رکھ کر گھر بھیج دیا گیا تھا کیونکہ میرا گھر اور محلہ لاک ڈاؤن میں ہے اور پوری فیملی قرنطینہ میں ہے۔ اب میرے پندرہ دن بھی پورے ہوگئے ہیں۔ تاہم میں باہر نہیں نکل رہا بلکہ گھرمیں ہی آرام کر رہا ہوں اور بچوں کے ساتھ کرکٹ بھی کھیل رہا ہوں۔