وزیراعظم کے اس اعلان کو محتلف مکتبہ فکر کی طرف سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس میں سے کچھ حلقے تو شروع دن سے ہی کپتان پر تلواریں تان کر کھڑے ہیں اور ان کے ہر عمل پر تنقیدی بیانات جاری کر رہے ہیں۔ کچھ حلقوں کی تنقید جائز بھی ہوتی ہے۔ ٹائیگر فورس کے قیام پر جائز تنقید کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
آج مقامی حکومتوں کی غیر فعالیت کو شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ مقامی حکومتوں کو گلی کوچوں تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ مقامی انتظامیہ گلی کوچوں کے مسائل سے آگاہ ہوتی ہے۔ یو سی لیول کا چیئرمین، ناظم اور کونسلر اپنی یوسی کے لوگوں کے ناموں سے نہ صرف واقف ہوتے ہیں بلکہ ان کے سماجی اور مالی مرتبے سے بھی آگاہ ہوتے ہیں۔ لہٰذا اس وبا کے دونوں میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت میں مقامی حکومتوں کا نظام سب سے مؤثر اور کامیاب ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم کو مقامی حکومتوں کے نظام کو فوری طور پر بحال کر دینا چاہیے اور لاک ڈاؤن میں سختی کے اوقات میں غریب افراد تک راشن کی ترسیل کا کام مقامی حکومتوں کے سپرد کر دینا چاہیے۔ اگر اصولی طور پر دیکھا جائے تو یہ ایک بہترین تجویز ہے مگر میرے خیال سے وزیراعظم عمران خان اس پر عمل نہیں کریں گے۔ بد قسمتی سے ہمارے معاشرے پر ابھی حقیقی بنیادوں میں جمہوری رویے اور جمہوری اصول لاگو نہیں ہوتے۔ بڑے بڑے جمہوریت کے اوتار ہر وقت جمہوریت کا راگ تو الاپتے ہیں مگر ان کے اپنے رویے غیر جمہوری ہیں۔
موروثی سیاست کے مارے اس سماج میں آج بھی جمہوریت اپنی اصل حالت میں موجود نہیں ہے۔ جمہوریت کا مطلب ہے عوامی نظام۔ پاکستان کے تمام وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کہاں ہیں؟ جاگیر داروں اور سرمایہ داروں کا ایک کلب ہے۔ عام آدمی اس کلب تک رسائی نہیں رکھتا۔ اگر چلا بھی جائے تو ڈاکٹر مبشر حسن کی طرح تائب ہو جاتا ہے یا پھر جہانگیر بدر کی طرح اپنا طقبہ بدل لیتا ہے۔ آج اگر وزیراعظم عمران خان مقامی حکومتوں کی بحالی کا اعلان کر دیں تو پنجاب میں نواز لیگ کے نمائندے مقامی حکومتوں میں اکثریت میں ہیں۔ کیا تحریک انصاف کی وفاقی اور صوبائی حکومت ان کو فنڈ جاری کرے گی؟ میرے خیال میں ہر گز نہیں کرے گی۔
فرض کریں اگر فنڈ جاری ہو بھی جاتے ہیں تو نواز لیگ اس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استمال کرے گی اور یہی کہے گی کہ وبا کے دنوں میں ہم نے ہی کام کیا ہے۔ تحریک انصاف کے ایم این اے اور ایم پی اے گھر میں دبک کر بیٹھ گئے تھے، لہٰذا تحریک انصاف کی حکومت اسیا کبھی نہیں چاہے گی۔
چونکہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے جمہوری رویے ناپحتہ ہیں، تنیوں بڑی سیاسی جماعتیں تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی وبا کے دنوں میں بھی گھٹیا سیاسی رنگ بازی کرنے سے باز نہیں آئیں گی۔ مقامی حکومتوں کی بحالی کی بہترین تجویز پر عمل نہیں ہو سکے گا۔
ہماری سیاسی جماعتوں کا یہ المیہ ہے کہ وہاں سیاسی کارکنوں کی سیاسی تربیت کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ سٹڈی سرکل نہیں ہوتے۔ کارکنوں کو چھوڑیں، سیاسی قائدین میں بھی مطالعہ کا رجحان نہیں ہے۔ نظریاتی کارکن ناپید ہیں۔ موروثی سیاست کی پیداوار ذہنی غلام بکثرت موجود ہیں جو اپنی قیادت کی ہر ناجائز بات کا دفاع کرنے میں پیش پیش ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کو ماضی میں نوجوانوں کے ساتھ کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ شوکت خانم اسپتال کی تعمیر سے لے کر احتجاجی سیاست تک وہ نوجوانوں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھا چکے ہیں لہٰذا وہ وبا کے دنوں میں اس روایت کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم وزیراعظم عمران خان کے ہر عمل کا دفاع نہیں کر سکتے۔ ان کو بھی اپنے عمل میں تبدیلی لانی ہو گی۔ اب وہ تحریک انصاف کے سربراہ نہیں، ملک کے وزیراعظم ہیں۔ ان کو قائد حزب اختلاف شہباز شریف، بلاول بھٹو زرداری اور دوسرے حزب اختلاف کے قائدین سے اہک نشست ضرور رکھنی چاہیے۔
وزیراعظم عمران خان جب بھی قوم سے خطاب کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اس ملک میں اقلیتیں بھی بستی ہیں۔ وہ صرف مسلمانوں کے وزیراعظم نہیں، ہندوؤں، مسیحیوں اور سکھوں کے بھی وزیراعظم ہیں۔ اپنے خطاب کے دوران ان کے جذبات کا خیال بھی رکھنا چاہیے۔
وفاقی کابینہ میں ایک غیر مسلم وزیر کا ہونا ضروری ہے۔ میڈیا کے حوالے سے بھی اپنی حکمت عملی کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم کو اپنے ریلیف پیکج میں صحافیوں کا کوٹہ رکھنا چاہیے۔ ان عناصر کی سرکوبی کرنی چاہیے جو سوشل میڈیا پر سینیئر صحافیوں کو گالیاں دیتے ہیں۔ وبا کے دنوں میں وزیراعظم کو تمام مکتبہ فکر کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ یہ مقابلے کا وقت ہے، آپس میں لڑائی کرنے کا نہیں۔