اس بارے میں میرا اور میرے ساتھ کے طالبعلموں کا ملا جلا رد عمل ہے۔
ایسے طلبہ جو کہ شمالی علاقہ جات کے رہائشی ہیں اور اپنے گھروں کو جا چکے ہیں، وہ اس نظام سے سخت نالاں ہیں کیونکہ ان کے علاقوں میں ابھی تک چار جی کی سہولت میسر نہیں۔ اور ٹو جی انٹرنیٹ کےساتھ نہ تو آن لائن کلاسز لی جا سکتی ہیں اور نہ لیکچر ریکارڈ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر مسائل میں لوڈ شیڈنگ وغیرہ شامل ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ تمام طلبہ ہی اس کے خلاف ہیں، کچھ طلبہ کا کہنا ہے کہ آن لائن کلاسز کا دورانیہ طویل نہیں ہونا چاہیے کیونکہ عادت نہ ہونے کے باعث اس طرز کی کلاسوں میں یکسوئی برقرار رکھنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ جبکہ کچھ طلبہ اس حق میں ہیں کہ آن لائن پڑھانے کے بجائے اساتذہ اپنے لیکچرز کی وڈیوز ریکارڈ کر کے طلبہ کے ساتھ شیئر کر لیں۔
اس بارے میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کے شعبہ ڈیویلپمنٹ سٹڈیز کے ایچ او ڈی ڈاکٹر ذوالفقار کلہوڑو کا کہنا تھا کہ آن لائن نظام ایک سمارٹ اور جدید طریقہ کار ہے جسے وہ کرونا سے پہلے بھی اپنے ریسرچ کے طلبہ کے ساتھ استعمال کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک جدید دور ہے جس میں ہمیں ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے۔ آن لائن کلاسز بھی ریگولر کلاسز کی طرح ہوتی ہیں جہاں طلبہ آپس میں اور استاد کے ساتھ مکالمہ کرسکتے ہیں۔ تاہم ان کا یہ کہنا تھا کہ ملک کے کئی حصوں میں انٹرنیٹ کے شدید مسائل ہیں جنہیں حل کرنا حکومت کی ذمہ دار ہے۔
ڈاکٹر کلہوڑو کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیے کہ ہر تحصیل یا علاقے کے کسی قریبی مقام پر کوئی ڈیوائس ہی نصب کر دے جہاں جا کر طلبہ اور دیگر افراد انٹرنیٹ استعمال کر سکیں۔ اور جہاں تک رہی بات لیکچرز ریکارڈ کر کے طلبہ کو دینے کی تو اس سے مکالمہ ختم ہو جائے گا۔ مکالمہ ختم ہوتا ہے تو ماہرین پیدا ہوتے ہیں، سوچنے والے پیدا نہیں ہوتے۔