وفاق کے زیرانتظام سابقہ قبائلی علاقہ جات جو حال ہی میں آئینی ترمیم کے بعد باقاعدہ خیبر پختون خوا میں ضم ہوچکے ہیں۔ پاکستان کا پسماندہ ترین علاقہ ہے۔ جہاں ویسے بھی بنیادی سہولیات کا فقدان ہے تاہم وہاں کا تعلیم اور صحت عامہ کا ڈھانچہ پہلے ہی دہشتگردی کے وباء کا شکار ہوچکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق وہاں ہزار سے زیادہ تعلیمی ادارے اور صحت عامہ کے مراکز طالبان کی شورش کے دور میں بموں سے اڑا دئیےگئے تھے۔ دستیاب دستاوزیزات کے مطابق پورے قبائلی علاقے کے سرکاری ہسپتالوںمیں اب تک نفسیاتی بیماریوں کا کوئی معالج موجود نہیں جبکہ اس کے ساتھ دیگر بیماریوں کے ڈاکٹرز کا بھی فقدان ہے۔ سابقہ فاٹا کا صحت کی سہولیات کے لئے پورا دارومدار پشاور کے ہسپتالوں پر ہے۔
ایسے میں موجودہ عالمی وبا سے نبٹنے کے لئے انتظامات کے حوالے سے یہ سوال بجا ہے کہ قبائلی علاقوں میں اس وبا سے نبٹنے کے خاطرخواہ انتظامات کئے گئے ہیں یا نہیں؟ نیا دور میڈیا نے قبائلی اضلاع میں صحت کی سہولیات کے تناظر میں وہاں کورونا سے نبٹنے کے انتظامات کے بارے میں تحقیق کی ہے۔ اس حوالے سے کئی سماجی کارکنوں اور صحافیوں سے بات کرنے کے دوران معلوم ہوا کہ قبائلی علاقے میں کورونا سے نبٹنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے۔
قبائلی علاقے سات اضلاع پر مشتمل ہیں جو پہلے ایجنیسوں کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان میں جنوبی وزیرستان، شمالی وزیرستان، کرم، باجوڑ، خیبر، مہند اوراورکزئی شامل ہیں۔قبائلی ضلع باجوڑ میں اس وقت چار مریضوں میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہیں جن میں ایک خاتون سعودی عرب سے عمرہ کرکے واپس آئی تھی جبکہ ایک مریض آزاد کشمیر کے ضلع مظفر آباد سے تبلیغ سے واپس آئے تھے جب کہ دو مریض جن میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے وہ کراچی اور لاہور میں محنت مزدوری کرتے تھے اور لاک ڈاوٗن کے بعد واپس اپنے گاوٗں چلے گئے جس کے بعد ان میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوئی تھی۔
باجوڑ کے مقامی نوجوان صحافی بلال یاسر نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ صوبائی حکومت کیجانب سے چار کروڑ انیس لاکھ روپے کا بجٹ منظور ہوچکا ہے مگر تاحال کوئی اقدامات نظر نہیں ارہے۔ نہ ہی یہ واضح ہوسکا ہے کہ وہ بجٹ کس طرح خرچ ہوگا کیونکہ صرف دوقرنطینیہ مراکز ابھی تک کھولے گئے ہیں اور حکومت کی جانب سے تاحال ڈاکٹرزاور دیگر سٹاف کو حفاظتی کٹس فراہم نہیں کی گئیں تاہم جماعت اسلامی کے رضا کاروں نے ہسپتال کے ڈاکٹرز کو کٹس فراہم کیں۔
بلال یاسر کےمطابق ضلع میں ماسک پہننے والوں کا تناسب پانچ فیصد سے بھی کم ہے۔دہشتگردی سے متاثرہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں اب تک کورونا وائرس کا کوئی تصدیق شدہ کیس نہیں مگر ہزاروں کی تعداد میں مزدور طبقہ بڑےشہروں میں لاک ڈاوٗن کے بعد جنوبی اور شمالی وزیرستان واپس منتقل ہوچکےہیں جن سے مستقبل قریب میں کورونا وائرس کے کیسز سامنے آ سکتے ہیں کیں کہ علاقے میں کسی قسم کی ٹیسٹنگ نہیں کی جا رہی۔
عرب نیوز سے منسلک صحافی رحمت محسود نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اب تک صرف چار کیسز پر تحقیق ہورہی ہیں جو مختلف جگہوں سے جنوبی اور شمالی وزیرستان داخل ہوئے تاہم تصدیق شدہ کوئی کیس نہیں۔ انھوں نے کہا حکومتی سطح پرلاک ڈاوٗن پر عملدرآمد کمزور ہے اور مقامی لوگ بھی تعاون نہیں کررہے ہیں۔صحافی عدنان بیٹنی نے کہا کہ اس وقت تک حکومتی اہلکار کوشش کررہے ہیں کہ لاک ڈاوٗن کی عملداری نافذ کریں مگر لوگوں میں سماجی شعور کی کمی کی وجہ سے حکومت کو مشکلات کا سامنا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹروں کو حفاظتی جیکٹس تاحال فراہم نہیں کی گئیں تاہم کچھ جگہوں پر قرنطینیہ مراکز بنائے گئےہیں۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک سماجی کارکن نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ اسوقت حکومتی دعووں کے باجود کچھ مدرسوں میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری ہےاورسینکڑوں کی تعداد میں طلبہ وہاں پر نہ صرف پڑھ رہے ہیں بلکہ گھروں میں جاکر راشن بھی مانگتے ہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اس وقت دو مدرسوں میںدرس و تدریس کا عمل جاری ہے جن میں ان میں نواب کے علاقے میں مولانا الیاس کا مدرسہ اور جامعہ مسجد نمرہ ہے جو انجم آباد کے علاقے میں ہے انمیں تاحال درس تدریس کا سلسلہ جاری ہے مگر حکومت نے تاحال ان کو بند نہیں کیا۔
قبائلی ضلع خیبر میں تاحال تین کیسز ہیں جن میں ایک کا تعلق باڑہ سے تھاجو مکمل صحتیاب ہوچکا ہے۔ جبکہ دو مریض قرنطینیہ میں زیر علاج ہیں۔ ضلع خیبر میں تاحال حکومت کی جانب سے صحت عامہ کے ملازمین کو حفاظتی کٹس فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ صحافی قیوم آفریدی کے مطابق حکومت کی جانب سےاقدامات اتنے تسلی بخش نہیں مگر مقامی رضاکار اور جماعت اسلامی کی رضاکار تنظیم وہاں پر سرگرم ہے۔ آفریدی کے مطابق اس وقت وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری جو یہاں سے ممبر قومی اسمبلی ہے اپنے حلقے سے غائب ہیں۔قبائلی اضلاع مہمند میں تاحال کوئی مریض سامنے نہیں آیا۔قبائلی
ضلع کرم جہاں اہل تشیع مکتبہ فکر کی ایک بڑی تعداد آباد ہے اور ہرسال لاکھوں لوگ زیارت کرنے ایران اور عراق جاتے ہیں میں تاحال تین کیسزرپورٹ ہوچکی ہے۔ پہلا کیس ایک نرس کا سامنے آیا جو اپنے آبائی علاقےگلگلت سے واپس پارہ چنار آچکی تھی اور ان کے خاندان نے ایران کا سفر کیاتھا ۔ جبکہ دو مزید کیسز میں ایک مریض ایران سے آئے تھے اور ایک متحدہ عرب عمارات سے جن میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے۔سماجی کارکن شاہد کاظمی نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ زائرین کی ایک بڑیتعداد جو کرم ایجنسی سے جاچکے تھے، کو تفتان اور ڈیرہ اسماعیل خان میں قرنطینیہ مراکز میں رکھا گیا ہے ۔لیکن زائرین کی ایک بڑی تعداد رشوت دیکر یا پھر چھپ کر بارڈر سے کرم منتقل ہوچکے ہیں مگر تاحال نہ تو حکومت کے پاس کوئی تفصیل موجود ہے اور نہ ہی ابھی تک ان لوگوں کا سراغ لگایا گیا کہ وہکہاں پر چھپے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ یہاں پر لوگوں میں شعور تو ہے مگر لوگوں کے لئے سب سے زیادہ خطرہ وہ زائرین ہے جو ایران سے چوری چھپے کرم منتقل ہوچکے ہیں اور اگر حکومت نے ان کو الگ نہیں کیا تو کرم میں کورونا مریضوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوسکتا ہے۔نیا دور میڈیا نے خیبر پختون خوا کے حکومتی ترجمان اجمل وزیر سے موقف جاننے کے لئے بار بار رابطہ کیا مگر ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔