طاقتور ملکوں نے صورتحال سے نکلنے کے لئے جو راستے اختیار کیے ہیں وہ ان کے اپنے فیصلے ہیں۔ شائد ان کی معیشت اور ان کے حالات اس کی اجازت دیتے ہیں مگر ہم جو کر رہے ہیں کیا وہ درست ہے؟ ہمار اخیال تھا کہ شائد تبدیلی کے نام پر اقتدار میں آنے والے کچھ نیا، کچھ الگ سوچیں گے، کوئی ایسا فیصلہ کریں گے کہ یہ خوفنا ک ریلا بھی گزر جائے گا اور پاکستان اپنے پاﺅں پر بھی کھڑا رہے گا۔ افسوس کہ ہم بھی اسی ڈگر پر چل نکلے جس پر ساری دنیا چل رہی ہے۔ عالمی سطح پر اب تک قریب 9 لاکھ مریض، 44 ہزار سے زائد اموات ہیں اور اربوں عوام گھروں میں محدود ہیں۔ پاکستان میں یکم اپریل تک 27 اموات 2112 مریض 16 ہزار مشتبہ کیسز اور 21 کروڑ صحت مند افراد گھروں میں بند ہیں۔
دو الفاظ ہر شخص کی زبان پر ہیں: ”سماجی دوری“۔ اور اسے ہی کورونا کا واحد حل کہا جا رہا ہے۔ صرف وزیراعظم پہلے دن سے لاک ڈاﺅن کے حامی نہیں ہیں لیکن وہ بھی اس کا متبادل حل نہیں بتا پا رہے۔ وزیراعظم کی تشویش بالکل بجا ہے۔ ابھی لاک ڈاﺅن کو دو ہفتے نہیں ہوئے، دہاڑی داروں کے گھروں پر فاقوں کی نوبت آ چکی ہے اور محنت مزدوری کر کے رزق حلال کمانے والا یہ طبقہ بھی سفید پوشی کے سارے بھرم بالا طاق رکھتے ہوئے اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے سڑکوں پر بھیک مانگتا نظر آ رہا ہے۔ یہ سلسلہ زیادہ دیر چلا تو کیا ہوگا، یہ ہر فرد کے سوچنے کی بات ہے۔
سرکاری ملازمین کو تو تنخواہیں مل چکی ہیں، بعض نجی اداروں نے بھی اپنے ملازمین کوادائیوں کا وعدہ کیا ہے لیکن بے شمار نجی اداروں کے ملازمین اندیشوں اور وسوسوں میں گھرے ہیں کہ ان کا کچن کیسے چلے گا۔ وزیر اعظم کے بقول یہ صورتحال چھ ماہ چل سکتی ہے، تو کیا لاک ڈاﺅن چھ ماہ برقرار رہے گا؟ یاد رہے کہ بھوک موت کا خوف بھی مٹا دیتی ہے۔ ایسا ہوا تو لوگ ہر رکاوٹ توڑتے ہوئے باہر نکل آئیں گے۔ پھر حکومت اور لاک ڈاﺅن کے حامی کیا کریں گے؟
وزیراعظم صاحب! امید ہے کہ آپ ان خدشات سے آگاہ ہوں گے۔ تو پھر اس کا حل کیوں نہیں نکالتے۔ اس معاملے کا حل موجود ہے اور وہ بھی اتنا مشکل نہیں صرف عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمارے خیال میں جس طرح ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کو حفاظتی کٹس دی جا رہی ہیں، فیکٹریوں اور دفاتر سمیت تمام سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین کو بھی اسی قسم کے حفاظتی لباس دے دیے جائیں تاکہ وہ کورونا سے بچاﺅ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے روزگار کے حصول کا سلسلہ موذی مرض کے خوف میں مبتلا ہوئے بغیر جاری رکھ سکیں۔ اب سوال یہ ہوگا کہ یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے؟ تو جناب وزیر اعظم صاحب! یہ بھی مشکل نہیں اور نہ ہی اس کے لئے کسی راکٹ سائنس فارمولے کی ضرورت ہے۔ حکومت سرکاری ملازمین کو خود کٹس دے، پرائیویٹ اداروں کے ملازمین کو ان اداروں کی طرف سے حفاظتی کٹس فراہم کی جائیں۔ یہ کٹس سرکاری نگرانی میں عالمی اصول و ضوابط کے تحت تمام تر حفاظتی اور ضروری ٹیسٹ پاس کرنے کے بعد تیار کی جائیں۔
ظاہر ہے اس خصوصی لباس پر کافی اخراجات اٹھیں گے لیکن یہ اس نقصان کے عشرعشیر بھی نہیں ہوگا جو انہیں اب تک کے لاک ڈاﺅن سے اٹھانا پڑا یا خدانخواستہ بقول وزیراعظم اگلے چھ ماہ کی ممکنہ صورتحال کے باعث متوقع بندشوں سے اٹھا نا پڑ سکتا ہے۔
یہ حفاظتی لباس طے شدہ نرخوں پر پرائیویٹ اداروں اور نجی کمپنیوں و فیکٹریوں کو سرکاری نگرانی میں پہنچایا جائے اور کسی بھی پرائیویٹ کاروبار سے منسلک تمام اداروں، کمپنیوں حتیٰ کہ تاجر و کاروباری افراد کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے ملازمین کی تعداد کے مطابق اس لباس کو خریدیں۔ جس طرح اس وقت کام کرنیوالے اداروں میں سینیٹائزرز اور تھرموگن کی موجودگی کو یقینی بنانے کے لئے احکامات جاری کیے گئے ہیں، اگلے مرحلے میں اس سے ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے اس اقدام کو چیک اینڈ بیلنس کے نظام کے تحت مزید مؤثر اور ناگزیر بناتے ہوئے لاک ڈاﺅن کو مزید بڑھانے کے بجائے کاروبار کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے یہ ثابت کیا جائے کہ ”کورونا سے ڈرنا نہیں لڑنا ہے“ محض نعرہ نہیں بلکہ بحیثیت قوم ہم ہر مشکل صورتحال کا نہ صرف سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں بلکہ اس سے ٹکرانا بھی ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
یہ محض ایک تجویز ہی نہیں مستقبل قریب میں درپیش صورتحال سے بچاﺅ کا ”کم خرچ بالا نشیں“ قابل عمل فارمولا بھی ہے۔ ہمارے خیال میں اسے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر مزید ریفائن کیا جائے تو کوئی شک نہیں کہ اس مجوزہ فارمولے پر عمل پیرا ہو کر آنے والے بحران سے بچا جا سکتا ہے۔ ہمارے خیال میں کچھ نہ کرنے سے یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے سے ہم حالات کے جبر سے خود کو نہیں بچا سکتے۔ کورونا ایک وبا ہے اور اسے عذاب بننے سے روکنے کے لئے ترقی یافتہ ممالک اپنے تمام تر وسائل اور اذہان خرچ کر رہے ہیں جب کہ ہمارے ہاں اس بات پر بحث کی جا رہی ہے کہ یہ وائرس اسرائیلی ہے یا امریکی۔
اس کج بحثی میں اپنا وقت برباد کرنے کے بجائے یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ کارپوریٹ کلچر اور پرائیویٹ سیکٹر میں تنخواہ کام کرنے کی دی جاتی ہے۔ جب کاروبار ہی مسلسل بند رہے تو تنخواہیں کس طرح دی جائیں گی؟
اب وزیراعظم صاحب سے توجہ کی درخواست ہے، کیوں کہ سنا ہے کہ وہ معاملات کے غیر روایتی حل کی جانب زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ جناب وزیراعظم! آپ نے فضائی آلودگی کے حوالے سے وہ وائرل ویڈیو تو دیکھی ہوگی جس میں لوگ آکسیجن سلنڈر کمر پر باندھے چل پھر رہے ہیں تو پھر یہ بھی جان لیں کہ ملک میں اس سے ملتی جلتی صورتحال ہو گئی ہے۔ تو آگے بڑھیں اور اس کا ڈٹ کا مقابلہ کریں اور خود کو ایک حقیقی اور غیر روایتی لیڈر ثابت کریں۔ کیوں کہ لیڈر وہ نہیں جو روتے پیٹتے اپنے پانچ سالہ اقتدار کو بچانے میں اپنی ساری صلاحیتیں اور ملک وقوم کا وقت اور پیسہ برباد کر دے۔ لیڈر وہ ہے جو ناگہانی آفت اور کڑے وقت میں مشکل فیصلے کرے۔
جناب وزیراعظم! 21 کروڑ صحت مند عوام کو گھروں میں بند کر کے انہیں اور معیشت کو بیمار مت کریں۔ اس وقت بھی ڈاکٹرز، پیرا میڈیکل سٹاف، سکیورٹی فورسز اور صحافی حضرات ہی نہیں دیگر کئی شعبے متحرک ہیں۔ اگر عوام کو کھانے پینے کی اشیا بآسانی مل رہی ہیں تو اس کا سبب وہی لوگ ہیں جو ان حالات میں بھی کام کر رہے ہیں۔ گھروں میں بجلی، پانی اور گیس آ رہی ہے تو ان کا نظام بھی لوگ ہی چلا رہے ہیں۔
صرف ایک حفاظتی لباس اور چند حفاظتی تدابیر پورے ملک کا نظام بحال کر سکتی ہیں۔ وزیر اعظم صاحب ہمت کریں اور معیشت اور عوام کو تباہی سے بچا لیں۔ ۔پہلے ہی 20 لاکھ لوگ بیروزگار ہو چکے ہیں۔ مزید کو اس کا شکار نہ ہونے دیں۔