گذشتہ چند برسوں سے دنیا بھر میں دائیں بازو کے مذہبی انتہا پسندوں کی سیاست میں خوب چاندی ہوئی ہے، خاص کر ایسے انتہا پسندوں کی جو مذہب کا نام لے کر سیاست کرتے ہیں اور طاقت کے مراکز کے منظورِ نظر بھی ہوتے ہیں۔ مثلاً بھارت میں نریندر مودی کے ہندو راشٹر اور پاکستان میں عمران خان کی ریاستِ مدینہ میں بغور دیکھا جائے تو زیادہ فرق نہیں۔ یہ دونوں لیڈران مڈل کلاس کے چہیتے ہیں اور سیاست میں مذہب کی آمیزش کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔
اسی طرح امریکہ میں ڈانلڈ ٹرمپ یا برطانیہ کے بورس جانسن اپنے اپنے معاشروں میں خیالی ولن پیدا کر کے اپنے ملکوں کی ’گمشدہ عظمت‘ کی بحالی کے خواب لوگوں کو دکھا کر اقتدار میں تو آ گئے لیکن اب کورونا وائرس کی آمد نے ان سب کے سامنے ایسے حالات پیدا کر دیے ہیں کہ جن میں یہ اپنا روایتی چورن بیچ کر عوام کو زیادہ دیر تک بیوقوف نہیں بنا سکتے۔ مثلاً کورونا وائرس امریکہ میں موجود ایک صومالی مسلمان کے لئے بھی اتنا ہی خطرناک ہے جتنا ایک عام سفید فام امریکی کے۔ بھارت میں ہندتوا کا منجن بیچنا بھی اس وقت مشکل ہے کیونکہ اگر اگلے ماہ الیکشن ہونے ہوں تو عوام اس بنیاد پر ووٹ نہیں دیں گے کہ کون سی سیاسی جماعت اقلیتوں پر سب سے زیادہ مظالم کرنے کا ٹریک ریکارڈ رکھتی ہے۔ اس وقت مقبولیت کا پیمانہ صرف اور صرف صحتِ عامہ کے لئے حکومتوں کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات ہیں۔
یوں کہا جائے کہ یہ وائرس یکایک گورننس کو دنیا کا اصل مسئلہ بنا کر سامنے لے آیا ہے تو بے جا نہ ہوگا۔
بھارت میں نریندر مودی بھی اس وقت ہندتوا وادی سوچ کو کچھ دیر کے لئے ایک طرف رکھ کر صحتِ عامہ پر توجہ دیں گے تو ہی اپنی مقبولیت برقرار رکھ پائیں گے۔ کشمیر کے لاک ڈاؤن اور شہریت کے متنازع قانون پاس کر کے انہوں نے جو انتہا پسند ہندو ذہنیت کو اپنے حق میں استعمال کر کے جو سیاسی فائدہ حاصل کرنا چاہا تھا، وہ اس وقت تو انہیں مل گیا لیکن اس وقت اس سے کہیں زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ اس وبا کا مقابلہ کیسے کریں گے۔
یہ درست ہے کہ نریندر مودی نے مکمل لاک ڈاؤن کر کے لیڈرشپ کا ثبوت دیا ہے۔ بھارتی ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے اس کی ذمہ داری لیتے ہوئے قوم سے مشکلات کے لئے معذرت بھی کی لیکن ساتھ ساتھ لاک ڈاؤن کو مزید سخت بھی کر دیا۔ یہ دوررس سوچ کی حامل پالیسی ہے۔ تاہم، ان پر یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ اس لاک ڈاؤن کے لئے پہلے سے پلاننگ نہیں کی گئی، اور گذشتہ کئی ہفتوں سے دنیا کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا علم تھا لیکن بھارتی وزیر اعظم نے اس سلسلے میں ایسے اقدامات نہیں کیے جو لاک ڈاؤن کے دوران عوام کے گھروں کے چولہے جلائے رکھنے میں معاون ثابت ہوتے۔
لیکن چونکہ اس وقت نریندر مودی اور ان کے ساتھیوں کے لئے ہندتوا منجن بیچنا ممکن نہیں ہے، اس سے بھارت میں اپوزیشن کو ایک بڑا موقع مل گیا ہے کہ وہ خود کو گورننس کے حوالے سے مودی سے بہتر ثابت کر کے دکھائے۔ اس حوالے سے کیرالہ کی بائیں بازو کی حکومت، پنجاب میں کانگرس حکومت کا لاک ڈاؤن خاصہ جاندار رہا۔ بنگال میں ممتا بنرجی کی حکومت بھی واضح طور پر بی جے پی ریاستوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی دکھا رہی ہیں۔
راہول گاندھی ایک منجھے ہوئے سیاستدان کی طرح فیصلے لے رہے ہیں۔ انہوں نے مودی حکومت پر تنقید کی لیکن اسے مثبت اور تعمیری انداز میں پیش کیا، اور جب نریندر مودی کی جانب سے ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا تو بھی انہوں نے اس کو خوش آمدید کہہ کر اپنی سیاسی maturity کا ثبوت دیا ہے۔
مودی کے لئے یہ ایک مشکل صورتحال تو ہے لیکن ساتھ ہی ایک سنہری موقع بھی ہے۔ اگر وہ اس وقت کورونا وائرس سے احسن انداز میں نمٹنے میں کامیاب ہو گئے تو اگلے کئی برسوں تک ہندتوا سوچ کے پھیلاؤ میں کوئی رکاوٹ دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ لیکن اگر وہ ایسا نہ کر پائے، تو ایک مرتبہ پھر عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے مسلمانوں، کشمیر اور پاکستان کے ساتھ کوئی لڑائی نکال لیں گے۔
لیکن لگتا یہی ہے کہ اس مرتبہ یہ وار خالی جائے گا۔ کیونکہ مذہبی نظریات سے قطع نظر بھارت کی ایک بڑی آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ان غربا میں صرف مسلمان شامل نہیں، وہ ہندو بھی شامل ہیں جن کو مودی جی نے سہانے سپنے دکھا کر ووٹ لیے تھے۔ جب مشکل ان پر آئے گی تو پھر مسلم دشمنی شاید بکے گی نہیں۔
یہی فیصلہ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے سامنے بھی ہے۔ اگر وہ کورونا وائرس کا مقابلہ کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو کرپشن سے پاک ریاستِ مدینہ ثانی بنانے کا خواب عوام کے لئے قابلِ قبول نہ ہوگا۔ حکومتوں کو اب اپنی توجہ عوام کی فلاح پر مرکوز کرنا ہوگی۔ کورونا وائرس کے بعد کی دنیا میں بھارت میں پاکستان، پاکستان میں اسلام، امریکہ میں سیاہ فام اور مسلمان اور ایران میں امریکی طاغوت انتخابات میں فتح کی ضمانت نہیں ہوں گے۔ حکومتوں نے عوام کی زندگیاں بہتر کرنے، تعلیم اور صحت پر وسائل خرچ کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا تو اس وقت اقتدار میں موجود جماعتوں کا کوئی سیاسی مستقبل نہیں۔