جبران کا منشور ہی ان کو دیگر جماعتوں سے ممتاز بنانے کے لئے کافی ہے
جبران ناصر ایک سماجی کارکن ہیں اور سماجی مسائل پر اپنی آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان انتخابات میں انہوں نے کراچی کی قومی اسمبلی کی نشست این اے 247 اور صوبائی اسمبلی کی نشست پی ایس 111 سے حصہ لیا۔ جبران نے گو کہ دونوں نشستوں پر چھ ہزار ووٹ ہی حاصل کیے مگر جس انداز میں انہوں نے اپنا ایک جامعہ منشور پیش کیا اور اپنی انتخابی مہم چلائی، وہ قابلِ دید ہے۔ اپنے منشور میں انہوں نے جن اہم نکات کو جگہ دی ان میں فوج کی سیاست میں عدم مداخلت، نظامِ عدل کی کمزوریوں، خواتین کے حقوق کا تحفظ، وی آئی پی کلچر کی حوصلہ شکنی، اقلیتوں کےخلاف مظالم اور ان کے حقوق کا تحفظ، میڈیا کی آزادی اور سنسرشپ کی حوصلہ شکنی، صاف پانی کی فراہمی، ماحولیاتی آلودگی، کرپشن اور بیڈ گورننس کی حوصلہ شکنی، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم، طلبہ اور مزدور تنظیموں کی بحالی، علاقائی امن اور مظبوط خارجہ پالیسی، معاشی اصلاحات، فنونِ لطیفہ اور ادب کا فروغ شامل ہیں۔ ان تمام امور کو اپنے منشور کا حصّہ بنانے پر جبران کے اس سیاسی منشور کو دی پبلک انٹرسٹ لاء ایسوسی ایشن آف پاکستان (PILAP) کی جانب سے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور کے مقابلے میں بہترین قرار دیا گیا۔ اس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کی ہمارے جیسے ملک میں جہاں اس طرح کا کوئی رجحان نہیں ہے وہاں بڑی سیاسی جماعتیں بھی مستقبل میں اپنے سیاسی منشور پر توجہ دیں گی۔
https://www.youtube.com/watch?v=7C0nbZ3Ktfs
انتخابات سورف پیسے سے نہیں لڑے جاتے
اپنی انتخابی مہم کے دوران جبران ناصر نے کچھ نئی روایات بھی قائم کیں، جن میں سے ایک انتخابات میں پیسے کے بے دریغ استعمال کی جو روایت کچھ عرصہ سے پڑ گئی ہے، اس کی حوصلہ شکنی ہے۔ اور انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر لگن سچی ہو تو پیسے کے بغیر بھی ایک مؤثر انتخابی مہم چلائی جا سکتی ہے۔ اس سے پڑھے لکھے اور متوسط طبقے کے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہوگی کہ وہ بھی سیاست میں آ کر ان کی طرح ایک اچھی مثال بن سکتے ہیں۔
جبران نے چند ووٹوں کے لئے اپنے نظریے کا سودا نہیں کیا
ایک اور اچھی روایت جو جبران ناصر نے قائم کی وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے نظریات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ ہماری سیاست میں نظریات کی کوئی اہمیت رہ ہی نہیں گئی۔ یہاں پر سب سیاسی جماعتیں ہی اپنے وقتی فائدے کے لئے نظریات کو قربان کر دیتی ہیں چاہے وہ مذہبی نظریات ہوں یا کوئی اور۔ جبران کو بھی ان کے مذہبی عقائد کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان سےبارہا ان کی انتخابی مہم کے دوران یہ کہا گیا کہ وہ اپنے عقیدے کی وضاحت کریں اور ایک مخصوص عقیدے کے لوگوں کو غلط کہیں، اگر کوئی اور ان کی جگہ ہوتا تو شاید ووٹ حاصل کرنے کے لئے ان کی بات مان لیتا، مگر جبران ناصر نے بہت ہمت دکھائی اور دھمکیوں اور حملوں کے باوجود جھکنے سے انکار کر دیا اور سب کو یہی پیغام دیا کہ ان کی نظر میں سب برابر ہیں اور وہ مذہب اور مسلک کی بنیاد پر کبھی بھی سیاست نہیں کریں گے۔ ان کی سوچ ان سب باتوں سے بالا تر ہے اور اگر اس وجہ سے ان کو کوئی ووٹ نہیں دیتا تو وہ بےشک نہ دے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اگر نیت صاف ہو تو اس گھٹن زدہ سماج میں بھی نئی روایات قائم کر کے مثبت تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔
جبران ناصر نے ان انتخابات میں تو آزاد امیدوارکی حیثیت سے حصہ لیا مگر اب انہوں نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ بہت خوش آئند ہے اور ان کی سیاسی جماعت ہماری سیاست میں ایک بہت اچھا اضافہ ثابت ہو گا۔ انتخابات 2018 کے پلئیر آف دی ٹورنامنٹ کے لئے بہت ساری نیک تمنائیں۔