الیکشن کے بعد سے اپوزیشن جماعتوں نے نتائج پر شور مچایا اور انہیں تسلیم کرنے سے انکار کیا تو اس میں پوری اپوزیشن متحد تھی حتیٰ کہ حکومت کے حلیف ایم کیو ایم اور جی ڈی اے بھی نتائج کو ماننے سے قاصر تھے۔ گویا ایک پوائنٹ کلئیر تھا کہ نتائج سے گڑ بڑ کی گئی ہے جس میں سب سے بڑی آواز مولانا فضل الرحمٰن کی تھی جنہوں نے اپوزیشن کو حلف لینے سے ہی منع کر دیا تاکہ نتائج پہ احتجاج باور طریقے سے ریکارڈ کروایا جا سکے لیکن اپوزیشن جماعتوں نے اس مطالبہ پر امن کی فاختہ بننے کو بہتر جانا۔
حالات یہ بتاتے ہیں کہ جن جماعتوں کے انتخابی نتائج سے چھیڑ چھاڑ کی گئی ان میں سر فہرست ن لیگ، جیعیتِ علمائے اسلام ف اور ایم کیو ایم ہیں بظاہر اپوزیشن میں موجود پیپلزپارٹی کو توقع سے زیادہ سیٹیں مل چکی ہیں ۔
ایم کیو ایم حکومتی اتحادی ہونے کی وجہ سے احتجاج کے موڈ میں نہیں ہے۔ کسی بھی احتجاج کی صورت میں مزاحمت صرف حکومت کے ہی خلاف تصور نہیں کی جائیگی بلکہ اسکا محور کہیں اور تصور کیا جارہا ہے جو حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہیں۔
سوائے نواز شریف اور مولانا کے ہمارے روایتی سیاستدان “انکے ساتھ” پنجہ آزمائی کی نہ اہلیت رکھتے ہیں نہ ہی ان سے توقع کی جا رہی ہے۔ پیپلز پارٹی زرداری کے زیر اثر چل رہی ہے اور وہ پہلے کی اپنی اینٹ سے اینٹ بجانے والی بات کو کئی سالوں سے کوور اپ کرتے آئے ہیں میرے ناقص تجزیہ کے مطابق احتجاج کی صورت میں مریم نواز مولانا کے ساتھ فرنٹ فٹ پر ہونگی اور بلاول جمہوریت بچاو کا نعرہ لگا کر امن کی فاختہ کا کردار ادا کریں گے۔
اسلام آباد احتجاج انہیں جماعتوں پر مشتمل ہو گا جنہیں اسمبلی سے غائب کیا گیا تھا اور یہ احتجاج گویا نواز شریف کے اس بیانیہ کا مظہر ہو گا جس پر انہوں نے الیکشن لڑا تھا “ووٹ کو عزت دو”
اپوزیشن احتجاج کس حد تک جاتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن یہ 2014 کے دھرنے سے بہت مشکل حالات میں ہوگا اور نہ ہی احتجاج کرنے والوں کو”اپنے لوگ” سمجھا جائگا جن پر طاقت کا استعمال نہیں ہوتا آیا۔ احتجاج کا نتیجہ جو بھی ہو عوام کے سامنے سیاسی جماعتوں کی منافقت سے پردہ ضرور ہٹ جائگا جس کا مجھ سمیت پاکستانوں کو انتظار رہے گا۔