ان کا کہنا تھا کہ جمہوری قوتوں کو ڈرے بغیر اپنا حق چھیننا چاہیے۔ سیلکٹڈ کب تک خیر منائیں گے؟ جعل سازی کو ایک دن مٹنا ہے۔ تحریک عدم اعتماد دوبارہ لانی چاہیے۔
واضح رہے کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام، حکومتی اتحاد نے میدان مار لیا، صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ برقرار رہیں گے۔ ووٹنگ کا عمل مکمل ہونے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے ووٹوں کی گنتی کی گئی۔
پریزائیڈنگ افسر بیرسٹر سیف نے ووٹوں کی گنتی کے بعد اعلان کیا کہ آئین کے مطابق قرارداد کے حق میں 50 ووٹ پڑے جس کی وجہ سے یہ قرارداد متعلقہ ایک چوتھائی ووٹ نہ ملنے کی وجہ سے مسترد کی جاتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی مخالفت میں 45 ووٹ پڑے جبکہ 5 ووٹ مسترد ہوئے۔
پریزائیڈنگ افسر بیرسٹر سیف کی زیر صدارت سینیٹ کا باقاعدہ اجلاس ہوا، اجلاس میں شرکت کے لیے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور قائد حزب اختلاف راجا ظفر الحق سمیت دیگر اراکین ایوان میں موجود تھے۔
https://twitter.com/MaryamNSharif/status/1156897017181941761?s=20
سینیٹ میں قائد حزب اختلاف راجا ظفر الحق کی جانب سے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی گئی جس کی تصدیق کے لیے ووٹنگ کرائی گئی اور 64 اراکین نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہو کر راجا ظفر الحق کی قرارداد کی حمایت کی۔
اراکین کی جانب سے قراداد کی حمایت کے بعد پریزائیڈنگ افسر نے اراکین کو تحریک عدم اعتماد کے لیے ووٹنگ کے طریقہ کار سے آگاہ کیا۔
اپوزیشن کی جانب سے مسلم لیگ ن کے سینیٹر جاوید عباسی اور حکومت کی جانب سے نعمان وزیر کو پولنگ ایجنٹ مقرر کیا۔
سینیٹر حافظ عبدالکریم نے چیئرمین صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے پہلا ووٹ کاسٹ کیا اور 104 سینیٹرز میں سے 100 اراکین نے ووٹ کاسٹ کیے۔ جماعت اسلامی کے دو اراکین نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جب کہ ن لیگ کے چوہدری تنویر نے بیرون ملک ہونے کی وجہ سے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جب کہ اسحاق ڈار نے تاحال سینیٹر کا حلف ہی نہیں اٹھایا ہے۔
تحریک عدم اعتماد سے پہلے اپوزیشن کے امیدوار سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا تھا کہ آج جمہوری اور غیر جمہوری قوتوں کے درمیان مقابلہ ہو رہا ہے، جمہوری قوتیں کامیاب ہوں گی۔
جبکہ چیئرمین صادق سنجرانی کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد کا بھرپور مقابلہ کرونگا، اپوزیشن کیلیے سیاسی میدان کھلا نہیں چھوڑا جائیگا۔
یاد رہے کہ ڈیڑھ سال پہلے صادق سنجرانی کو چیئرمین سینٹ بنوانے میں پیپلز پارٹی کا کلیدی کردار تھا۔ اس وقت پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نواز کا ساتھ دینے کی بجائے پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر سنجرانی کو چیئرمین اور اپنی جماعت کے سلیم مانڈوی والا کو ڈپٹی چیئرمین منتخب کرایا تھا۔