جیو نیوز کے پروگرام ''آج شاہ زیب خانزادہ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے سائمن کلارک نے کہا کہ مہمانوں نے کہا تھا کہ ہمیں یہ تو پتا تھا کہ یہ پیسہ فلاحی اور خیراتی کاموں میں جائے گا لیکن اس بات کا علم نہیں تھا کہ کون سی خیراتی یا فلاحی تنظیموں کو یہ رقم دی جائے گی۔
سائمن کلارک نے کہا کہ مگر یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ میرا آرٹیکل کیا کہہ رہا ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کا کیا موقف ہے؟ تحریک انصاف اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ عارف نقوی کی کمپنی ووٹن کرکٹ نے جماعت کو 21 لاکھ ڈالرز بھیجے۔ میرا آرٹیکل یہ بتاتا ہے کہ اس میں 13 لاکھ ڈالرز ابراج سے آئے تھے اور بیرون ملک مقیم پاکستانی شہریوں نے نہیں دیئے تھے۔ اس کیساتھ ووٹن کرکٹ کو 20 لاکھ ڈالر متحدہ عرب امارات کے شیخ النہیان نے دیئے تھے جو ابوظہبی کے شاہی خاندان کے رکن ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ابراج کی ای میلز میں عارف نقوی اور شیخ النہیان کے 20 لاکھ ڈالرز میں سے 12 لاکھ ڈالرز تحریک انصاف کو بھیجنے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ تمام تر پیسہ پاکستان بھیجا گیا اور طارق شفیع اور انصاف ٹرسٹ کے اکائونٹ سے آیا اور ابراج کی ای میلز میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کیلئے تھا مگر تحریک انصاف کا موقف ہے کہ یہ بات ان کے علم میں بالکل بھی نہیں ہے کہ شیخ النہیان نے تحریک انصاف کو فنڈنگ فراہم کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ 2010 سے 2012 تک کے 3 سالوں میں سینکڑوں لوگوں نے ان کرکٹ میچوں میں حصہ لیا۔ اور ان میچوں میں حصہ لینے والی جن شخصیات سے میں نے بات کی ان کا کہنا ہے کہ ہمارے بالکل علم میں نہیں تھا کہ ان عطیات کا پیسہ کہاں استعمال ہوگا، وہ حیران رہ گئے جب میں نے ان کو بتایا کہ شاید یہ پیسہ پاکستان تحریک انصاف کیلئے گیا ہے۔
برطانوی صحافی کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ ووٹن میں جمع کیا گیا کچھ پیسہ دوسرے مقاصد کیلئے بھی استعمال کیا گیا ہو، مگر یقینی طور پر میں نے جن لوگوں سے بات کی ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ان عطیات کا پیسہ تحریک انصاف کو جائے گا۔ یہی میری سٹوری کا اہم پوائنٹ ہے کہ عارف نقوی کی کمپنی ووٹن کرکٹ لیمیٹڈ میں ان چیرٹی کیلئے منعقد کی گئی تقاریب سے بھی پیسے آ رہے تھے اور دیگر ذرائع سے بھی ان کو رقوم آ رہی تھیں۔ اور اس میں سے پیسے پاکستان تحریک انصاف کو جا رہے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ووٹن کرکٹ نے جو 21 لاکھ ڈالرز تحریک انصاف کو بھیجے اس میں 13 لاکھ ڈالرز ابراج سے آئے تھے اور وہ انفرادی طور پر دیئے گئے عطیات نہیں تھے بلکہ ایک کمپنی کی طرف سے آئے تھے اور پاکستانی قوانین کے مطابق کسی سیاسی جماعت کو یہ اجازت نہیں ہے کہ وہ کسی کمپنی سے فنڈنگ لے۔
صحافی سائمن کلارک نے کہا کہ میں ساڑھے چار سال سے عارف نقوی سے متعلق تحقیقات کر رہا ہوں، عارف نقوی کے خلاف سازش کے ثبوت نہیں دیکھے مگر ابراج میں مالی بے ضابطگیوں کے بے پناہ ثبوت دیکھے۔
برطانوی صحافی نے کہا کہ 22 سالہ صحافت میں ایسی صورتحال کسی کمپنی کی نہیں دیکھی، اسپتال بنانے کے لیے فنڈ جمع کیے مگر انہیں دیگر کاموں پر خرچ کر دیا۔ سائمن کلارک نے کہا کہ نواز اور شہباز کو پیسے دینے سے متعلق ای میلز دیکھیں مگر رقم کی منتقلی کے ثبوت نہیں دیکھے۔