آج سے پہلے میں نے اپنی تعلیم کے دوران بھی کبھی طلبہ کو اپنے لئے نعرے لگاتے نہیں دیکھا۔ ہمیشہ یہ دیکھا کہ وہ کسی نہ کسی پارٹی سے وابستہ ہو جاتے تھے اور اپنی پارٹی کے لئے مارنے مر مٹنے کو بھی تیار تھے۔ اسی طرح میں نے آج تک پشتونوں کو گِلہ کرتے نہیں دیکھا تھا کہ آخر انہی کے علاقوں میں ہی دہشت گرد کیوں آ جاتے ہیں۔ میں نے یہ بھی نہیں دیکھا تھا کہ ایک سابق وزیراعظم کھل کر جج کو کہہ رہا ہو کہ آپ 14 دن کا نہیں بلکہ 90 دن کا ریمانڈ دے دیں تا کہ میں استغاثہ کو پورا کیس سمجھا دوں۔
یہ تو بالکل نہیں دیکھا تھا کہ عدالت آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کے بارے میں کیس بھی سنے گی۔ نہیں دیکھا تھا کہ جج صحافی کو یہاں تک کہہ دیں گے کہ آج کے بعد ڈیل ویل میں ہمیں گندا کرنے کی کوشش کی تو بلاوا آئے گا، اس لیے زبان سنبھال کے۔ تاجروں کو کبھی دکان چند گھنٹوں سے زیادہ بند کرتے نہیں دیکھا تھا اور اب تو دو، دو دن تک بات چلی گئی ہے۔
اس سب کا سہرا وزیراعظم کو جاتا ہے جن کے انتھک شور مچانے کی وجہ سے وہ مگرمچھ بھی بیدار ہو رہے ہیں جو مٹھائی کھا کے سو جانے کے عادی ہیں۔
نیب کا خوف تو تھا لیکن سارے کے سارے افسر ناخوش نہیں تھے۔ پہلی مرتبہ ہے کہ سرکاری اداروں میں تنخواہوں میں کمی کی گئی، وہ بھی انتہائی چالاکی سے۔ معمولی سے تنخواہ بڑھا کے ٹیکس دگنا کر دیا اور اب افسروں اور دیگر اہلکاروں کو پہلے سے بھی کم تنخواہ مل رہی ہے۔ کہیں انہوں نے آرمی چیف کے کیس میں جان بوجھ کے غلطیاں کر کے ناراضگی کا اظہار تو نہیں کیا؟ یہ بھی جاگ رہے ہیں کہ پہلے تبادلہ سالوں بعد ہوتا تھا اور اب مہینوں اور دنوں تک بات آ گئی ہے۔
سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔ لوگ ایک ڈگر پر چل رہے تھے۔ کسی کی خواہش ہی نہیں تھی آزادی کی سانس لینے کی۔ طلبہ محض نوکری کی فکر میں تھے یا چھوکری کی۔ جیسے ہی یہ دونوں کام ہو جاتے یعنی نوکری اور پھر شادی تو بس زندگی مکمل محسوس ہوتی تھی۔ کسی کو یہ خاص فکر نہیں تھی کہ حکمران وردی میں ہیں یا سیاستدان۔ دونوں کے ادوار میں لوگوں نے عام طور پر عدم دلچسپی قائم رکھی اور جو ہوتا رہا وہ مانتے گئے۔
مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ کیسے ہمارے بڑوں کو کچھ فرق نہیں پڑا تھا جب اچانک سے جنرل پرویز مشرف ملک کے حکمران بن گئے۔ بلکہ میں نے عموماً لوگوں کو خوش دیکھا تھا۔ میں محض چھٹی جماعت کا طالب علم تھا اور چونکہ کیڈٹ کالج میں پڑھتا تھا، وردی پہنتا تھا تو مجھے بھی جنرل مشرف سے محبت ہو گئی۔ پھر ایک دن اچانک سے نائن الیون ہوا اور کچھ دنوں بعد پتا چلا کہ پاکستان نے امریکہ کو اڈے دے دیے ہیں کہ وہ یہاں سے افغانستان پہ بمباری کر سکیں۔ ہم تھے تو چھوٹے مگر سخت کنفیوژ تھے۔ جس دن امریکہ پہ حملہ ہوا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ پاکستان کے لوگ بہت خوش تھے کیونکہ ہر تقریر میں امریکہ کو ایک ملک دشمن اور اسلام دشمن طاقت کے طور پہ پیش کیا جاتا تھا۔ اسامہ بن لادن کو ہمارے بڑے ہیرو کہا کرتے تھے کہ اس نے وہ کام کر دکھایا جو بڑے بڑے نہ کر سکے۔ اپنے ہی ملک میں یہ دیکھتے رہے کہ ایک ہی شخص ایک وقت میں دہشتگرد اور ہیرو کیسے ہو سکتا ہے؟ دیکھتے رہے کہ ایک طرف امریکہ ہمارا دشمن ہے اور دوسری طرف دوست بھی۔
جب عوام نے اڈے امریکہ کو دینے پر تھوڑی بہت خفگی کا اظہار کیا تو عوام کو یہ بتایا گیا کہ اگر ہم ایسا نہ کرتے تو امریکہ ہمارا بھی بیڑہ غرق کر دیتا۔ لوگوں نے یہ بھی مان لیا اور وہ سب اسباق بھول گئے۔
اب لوگوں کے مطالبات یکدم بڑھتے جا رہے ہیں۔ طلبہ و طالبات محض نوکری اور شادی کے علاوہ کچھ اور بھی چاہ رہے ہیں۔ افسر تنخواہ اور گاڑیوں کے ساتھ ساتھ عزت کی خواہش کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ صحافی جن کو غدار کہہ کے جھٹک دیا جاتا تھا اب خوب دھڑلے سے مخالف کو جواب دیتے نظر آتے ہیں۔
پہلے لوگ جمہوریت صرف اس بات کو سمجھتے تھے کہ وزیراعظم ایک سیاستدان ہو اور آمریت اس کو کہ ملک چلانے والا وردی میں ملبوس ہو۔ اب ان کو جمہوریت کے اندر بھی آمریت نظر آنے لگی ہے۔ لوگوں کو مسلسل یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ یہ نیا نظام جمہوریت اور آمریت کا ایک منفرد مجموعہ ہے۔ یہی منجن جنرل ضیاالحق نے بیچا تھا جب انہوں نے اس وقت کی خود کی چنی ہوئی مجلسِ شوریٰ کے سامنے کہا کہ وہ اس ملک میں شوریٰ کریسی کا نظام لائیں گے یعنی آدھی جمہوریت آدھی شریعت۔ آج اسی فارمولے کو Same Page کے نام سے مارکیٹ میں متعارف کرایا گیا ہے لیکن خریدار کم ہو گئے ہیں۔
خان صاحب کی تقریروں، وعدوں اور وعدہ خلافیوں نے نہ جانتے بوجھتے ان جوانوں کو جگا دیا جو ان کے چنگل میں پھنسنے سے بچ گئے تھے۔ اور اب ان جوانوں نے پھر سے اقبال اور فیض کی شاعری کو زندہ کر دیا ہے۔ اور وہ شاعری اب ان کو زندہ کر رہی ہے۔
علامہ اقبال کا کلام ان طلبہ کے نام جو آج اپنے جاگنے کا ثبوت دے رہے ہیں۔
گرم ہو جاتا ہے جب محکوم قوموں کا لہو
تھرتھراتا ہے جہان چار سوئے و رنگ و بو
پاک ہوتا ہے ظن و تخمیں سے انساں کا ضمیر
کرتا ہے ہر راہ کو روشن چراغ آرزو
وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انھیں بے سوزن و تار رفو
ضربت پیہم سے ہو جاتا ہے آخر پاش پاش
حاکمیت کا بت سنگیں دل و آئینہ رو
ازراہ تفنن