صوبہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی سیاست دو دہائیوں سے مفلوج ہے اور اس کی بنیادی وجہ مسلم لیگ نواز کی ڈرامائی انداز میں بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اسٹیبلشمنٹ کا پی ٹی آئی پر دستِ شفقت ہیں، لیکن اس سے بھی بڑا مسئلہ پنجاب میں پیپلز پارٹی کی قیادت کا فقدان ہے۔ سردار فاروق لغاری جو کہ پیپلز پارٹی کے پنجاب میں معاملات کو سنبھالتے تھے، وہ 1996 میں پارٹی کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ غلام مصطفیٰ کھر پر نہ تو بینظیر بھٹو، نہ ہی آصف علی زرداری نے اعتبار کیا اور شاہ محمود قریشی صرف اسٹیبلشمنٹ کی پچ پر ہی کھیلنا جانتے ہیں۔
آصف علی زرداری کا منظور وٹو کو آگے لانے کا تجربہ بھی بری طرح ناکام ہو گیا۔ یوسف رضا گیلانی 2002 سے 2006 تک تو جیل میں رہے اور بعد میں قومی سطح کی سیاست میں مصروف رہے۔ 2007 میں بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے جیالے اور مرکزی قیادت کے درمیان رشتہ بھی ٹوٹ گیا، اور یہی وجہ ہے کہ پچھلے دو انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اس صوبے میں شکستِ فاش کا سامنا کیا۔ لیکن آصفہ بھٹو کی ملتان آمد نے نہ صرف جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو متحرک کیا بلکہ بینظیر بھٹو سے مشابہت رکھنے والی ان کی چھوٹی صاحبزادی نے بھٹو خاندان کی مقناطیسیت کا ایک بار پھر یقین دلا دیا۔
اگرچہ آصفہ کی تقریر مختصر تھی اور ان کا اردو زبان پر عبور ابھی مکمل نہیں لیکن ان کی موجودگی نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی کم از کم جنوبی پنجاب کی سطح پر دوبارہ سے زندہ ہو سکتی ہے۔ البتہ مستقبل میں بینظیر بھٹو کی وراثت ہی کافی نہیں ہوگی بلکہ بلاول بھٹو زرداری کو اپنی والدہ کی طرح پنجاب میں ایک نئی پیپلز پارٹی کی داغ بیل ڈالنا ہوگی اور پنجاب کے بدلتے ہوئے سماجی ڈھانچے کے مطابق ایک نیا منشور بھی پیش کرنا ہوگا جو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے مطابقت رکھتا ہو اور شہری علاقوں میں بسنے والی مڈل کلاس کے مسائل کا ایک قابلِ عمل حل پیش کرتا ہو۔
یاد رہے کہ 2008 سے 2013 کے دوران پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اس وقت کے غیر سیاسی اداکاروں نے عمران خان کو ایک انتخابی متبادل کے طور پر لانچ کیا تھا۔ چونکہ عمران خان کا ہدف ہمیشہ سے نواز شریف اور ان کی پارٹی ہی رہے ہیں، اس لئے ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری نے اس پوری سیاسی انجینیئرنگ پر خاموشی اختیار کیے رکھی اور اس مغالطے میں رہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی مخالف ووٹ تقسیم ہونے کا فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوگا۔ لیکن 2013 کے انتخابات نے یہ ثابت کیا کہ جہاں مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک برقرار رہا، وہاں پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک پی ٹی آئی کی طرف منتقل ہو گیا۔ اسی وجہ سے پنجاب کے کئی شہری علاقوں میں پیپلز پارٹی کے امیدواروں کی ضمانتیں ضبط ہو جاتی ہیں کیونکہ اب ووٹر اور خاص طور پر نوجوان ووٹر تاریخ سے نابلد بھی ہیں اور میڈیا کے ذریعے پھیلائے گئے پراپیگنڈا کے اسیر بھی، وہ پنجاب میں دو ہی قوتوں کی طرف دیکھتے ہیں، اور ان میں پی پی پی شامل نہیں۔
یہ صورتحال مزید یوں بھی بگڑی کہ پارٹی کے اندر کسی قسم کی خود احتسابی کا نظام نہ کبھی تھا، نہ ہے۔ 2013 کی انتخابی شکست کو افتخار چودھری، ریٹرننگ آفیسرز اور طالبان کی کورٹ میں پھینک دیا گیا۔ ایک کمیٹی بھی بنائی گئی جس کی تجاویز نہ تو کبھی منظرِ عام پر آئیں اور نہ ہی ان پر کوئی عمل ہوا۔ پیپلز پارٹی پنجاب مزید بے یقینی اور قیادت سے محروم کھائی میں گرتی چلی گئی۔ اس حد تک کہ بلاول بھٹو کی طوفانی الیکشن مہم نے بھی 2018 کے انتخابات میں کچھ نہ بدلا۔ وسطی پنجاب سے پیپلز پارٹی کا قریباً صفایا ہو گیا اور جنوبی پنجاب انجینیئرنگ سے فیضیاب ہو کر آزاد امیدواروں کے ذریعے حکومتی جماعت کی پارلیمانی پارٹی میں پہنچ گیا۔
ان تمام تلخ حقائق کے باوجود آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی پنجاب کو سیاسی طور پر یتیم ہی رکھا۔ اگرچہ ابھی بھی پنجاب میں پی پی پی کی تنظیم سازی نہ ہونے کے برابر ہے لیکن بلاول بھٹو زرداری ان تمام معاملات کو سمجھتے ہیں۔
ابھی تک بلاول کو وہ فری ہینڈ میسر نہیں جو ان کی والدہ نے خود حاصل کیا تھا اور پارٹی کے اوپر اپنا مکمل کنٹرول قائم کیا تھا۔ پی ڈی ایم کا ملتان میں جلسہ گیلانی خاندان کے لئے زندگی کی ایک نئی رمق ثابت ہوا ہے۔ اور اب پیپلز پارٹی کے پاس پنجاب میں بینظیر کے دو بچوں کے علاوہ گیلانی خاندان کا کارڈ بھی ہے اور یوں اس پارٹی کے یہاں دوبارہ متحرک ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی ڈھائی سالہ ناقص کارکردگی، شدید مہنگائی اور عمران خان سے وابستہ غیر حقیقی امیدیں ختم ہونے کے بعد عین ممکن ہے کہ تحریکِ انصاف کے بہت سے ووٹر دوبارہ پیپلز پارٹی کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ پچھلی دہائیوں کے برعکس، ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں لوگ کہیں زیادہ باشعور اور باخبر ہو چکے ہیں اور یہ ایک مثبت پیش رفت ہوگی کہ اگر ووٹ دینے والے پارٹیوں کی کارکردگی اور ریکارڈ کو سامنے رکھ کر اگلے الیکشن میں اپنے ووٹ کا فیصلہ کریں گے۔
آخر میں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ بلاول بھٹو اور آصفہ بھٹو پاکستان کے نوجوانوں کے ترجمان بھی بن سکتے ہیں کیونکہ جہاں ان کو ایک سیاسی میراث ملی ہے تو دوسری طرف وہ مصائب اور دشواریوں سے نبرد آزما ہونے کا مظاہرہ بھی کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ دونوں نوجوان رہنما اپنے سیاسی اثاثوں کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں یا یہ بھی اپنے والد کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ شطرنج کی بازیوں کی نذر ہو جائیں گے؟ٖ