ٹویٹر کی جانب سے جاری نئے قوانین میں کہا گیا ہے کہ بغیر اجازت کسی کا مواد شائع کرنے سے اقلیتی برادری کے افراد، سماجی کارکنوں اور خاص طور پر خواتین پر اس کا اثر ہو سکتا ہے۔ اب صارفین ایسی کسی بھی پوسٹ کو ہٹانے کا کہہ سکتے ہیں جنھیں ان کی اجازت کے بغیر لگایا گیا ہو۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پالیسی کی خلاف ورزی کرنے والے صارفین پر سخت ایکشن لیا جائے گا۔ انہیں یا تو اپنی ایسی ٹویٹس ڈیلیٹ کرنا ہوگی یا پھر انھیں سرچ رزلٹس اور رپلائیز میں نیچے لے جایا جائے گا۔
https://twitter.com/TwitterSafety/status/1465683094581792771?s=20
امریکی ٹیکنالوجی کی جانب سے کہا گیا کہ ایسے صارفین کی جانب سے اگر مسلسل قوانین کو نظر انداز کرکے ان کی خلاف ورزیاں کی جاتی رہیں تو ان کا ٹویٹر اکائونٹ ہمیشہ کیلئے معطل کیا جا سکتا ہے۔
ٹویٹر کی اس نئی پالیسی میں عوامی شخصیات اور ان کے پرائیوٹ میڈیا کو اس سے استثنیٰ ہوگا۔ مفاد عامہ میں کی گئی ٹویٹس کو برقرار رکھتے ہوئے انھیں ڈیلیٹ نہیں کیا جائے گا۔
تاہم کمپنی نے واضح کیا ہے کہ اگر عوامی شخصیات یا دیگر افراد کی نجی تصاویر یا ویڈیوز کو شیئر کرنے کا مقصد ان کو ہراساں کرنا یا چپ کرانا ہوگا تو ٹوئٹر کی جانب سے ان فائلز کو ڈیلیٹ کردیا جائے گا۔ اس کے علاوہ اخبارات یا ٹیلی ویژن میں شائو تصاویر کی موجودگی کو بھی مدنظر رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔