گلگت بلتستان متنازع جموں و کشمیر کا حصہ، عبوری صوبے کا ڈرامہ پھر سے رچایا جارہا ہے

گلگت بلتستان متنازع جموں و کشمیر کا حصہ، عبوری صوبے کا ڈرامہ پھر سے رچایا جارہا ہے
گلگت بلتستان پر مسلط استعماری قوتوں کی چُنتخِب پوٹی آئی پالٹی کے وزیر اعلیٰ خالد خورشید نے کابینہ اجلاس میں یہ فرمایا ہے کہ عنقریب گلگت بلتستان عبوری صوبہ بننے کی صورت میں اس خطے کا بھی کوئی اشرف المخلوق پاکستان کا وزیر اعظم بننے کا اہل قرار پائے گا اور سب سے مضحکہ خیز بات وزیر اعلیٰ نے یہ کی ہے کہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 1 میں ترمیم کیے بغیر ہی گلگت بلتستان بااختیار صوبہ بنے گا۔

یہ منتخب حکومت بھی صوبہ دینے کا وہی ڈرامہ پھر سے دہرا رہی ہے جو ہر حکومت آتے ساتھ ہی شروع کردیتی ہے، لیکن اب کی بار گلگت بلتستان کے لوگ اس صوبے والے ڈرامے کو سمجھ چکے ہیں اور پاکستانی استعمار کی باتوں میں نہیں آنے والے تاہم پھر بھی چنتخب حکومت وہی ڈرامہ پھر سے دہرا رہی ہے۔ کوئی سادہ السادہ انسان کو بھی یہ بات طشت از بام ہے کہ کسی بھی ملک کے آئین میں کسی خطے کو شامل کیے بغیر اس ملک کا وہ خطہ صوبہ نہیں بن سکتا نہ وہاں سے منتخب شدہ نمائندے وزیر اعظم بننے یا چننے کے لیے ووٹ نہیں ڈال سکتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ خورشید شاہ خود ایک بیریسٹر ہیں لیکن جناب کو اتنی سادہ بات کا بھی علم نہیں ، نہیں جی وزیر اعلیٰ کو سب پتا ہے اور یہ باتیں وزیر اعلیٰ کی خود کی نہیں بلکہ ڈوریں ہلانے والوں کی ہیں۔ میں ان ڈوریں ہلانے والوں سے نہایت ادب و احترام کے ساتھ یہ بات کرنا چاہ رہا ہوں کہ اب پہلے کی طرح آپ کی ہر جھوٹی من گھڑت بات کو گلگت بلتستان والے ماننے والے نہیں۔ اب وقت تبدیل ہوچکا ہے۔

نواز خان ناجی ، احسان ایڈووکیٹ اور حسنین رمل کی بدولت سب کو علم ہوچکا اور آپ کی سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی سب نے دیکھ لیا کہ گلگت بلتستان متنازع جموں و کشمیر تنازعے کا حصہ ہونے کی نسبت متنازع علاقہ ہے جس کی تصدیق یو این سی آئی پی کی قراردادیں کرتا ہے۔ پاکستان کا کشمیر تنازعے پر سرکاری موقف یہی ہے کہ پورا خطہ جموں و کشمیر سمیت گلگت بلتستان متنازع ہے اور تصفیہ کشمیر یعنی اقوامِ متحدہ کے زیر انتظام جب تک رائے شماری کا انعقاد نہیں ہوتا تب تک پاکستان گلگت بلتستان کو اپنا آئین کا حصہ نہیں بنا سکتا چوںکہ اس کا موقف فنا ہو جائے گا۔

اگر پھر بھی سب چیزوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان نیا صوبہ بنا بھی لیتا ہے تو کیا گلگت بلتستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی؟ بلوچستان ، اور سابق قبائلی علاقہ جات کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے جو پاکستان کے آئینی حصے ہیں تو ایسا بلکل بھی نہیں لگتا، جہاں ریاست عوام کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑی ہوئی ہے ، وہاں کے وسائل کی لوٹ مار کررہی ہے ، زمینوں پر قبضہ جما رہی ہے اور لوگوں کو آواز اٹھانے پر ان کو اغواء کرتی ہے۔ اس سے ہمیں آگاہی ملتی ہے کہ پاکستان والا طرزِ نظام مطلق العنان ہے جس میں ہم بلکل بھی شامل ہونے کے خواہشمند نہیں۔

گلگت بلتستان کے لوگوں کا پاکستان سے یہی مطالبہ ہے کہ اقوامِ متحدہ کی 13 اگست 1948 کی قرارداد کے تحت لوکل اتھارٹی قائم کرنے کا حق دے، سٹیٹ سبجیکٹ رول کی خلاف ورزی بند کرتے ہوئے اپنے سول شہریوں کو اس خطے سے نکالے۔ با الفاظ دیگر پاکستان گلگت بلتستان کو اندرونی خودمختاری مہیا کرے جس سے پاکستان کو بین الاقوامی کمیونٹی میں یہ اقدام کرنے سے پزیرائی ملے گی۔

لیکن ہم سب کو معلوم ہے کہ پاکستان استعماری عزائم لیے گلگت بلتستان کو اپنی لونڈیا کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ وسائل کی بے دریغ لوٹ مار کررہا ہے ، خالصہ سرکار نوتوڑ رولز کے تحت اجتماعی لوگوں کی جدی پشتی زمینوں پر قبضہ کررہا ہے۔ اس صورت میں ہم پاکستان سے حقوق صرف اس صورت میں لے سکتے ہیں جب ہم باہم مل کر تحریک نہیں چلاتے۔ صرف خالی خولی مطالبات سے ان کی کانوں میں جوں بھی نہیں رینگتی۔