خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کا فطری اور جمہوری نظریہ پشتونستان

خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی کا فطری اور جمہوری نظریہ پشتونستان
خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی تاریخ اقوام عالم بالخصوص پشتون افغان تاریخ کی ان عظیم ہستیوں کی قبیل سے ہیں جن کے تدبر، بصیرت، جہد مسلسل، قائدانہ صلاحیتوں اور عظیم افکار کی داستانیں تاریخ کے پنوں میں ابھی عیاں ہونا باقی ہیں۔ انہی منفرد اور فقید المثال خاصیتوں کی بنیاد پر پشتون بلوچ صوبے کے سیاسی رہنما اور ممتاز دانشور سائیں کمال خان شیرانی آپ کو 'آئیڈیل خان' کہتے تھے۔

عبدالصمد خان اچکزئی کی کم و بیش 44 برس پر محیط سیاسی جدوجہد کا مرکز ڈیورنڈ لائن سے اس پار برٹش انڈیا اور بعد میں پاکستان میں مختلف اکائیوں میں منقسم لیکن ایک ہی ہم جوار خطے میں واقع پشتونخوا وطن کو ایک متحدہ خود مختار صوبے 'پشتونستان' میں یکجا کرنا تھا۔

پشتونستان ایک ایسی اصطلاح ہے جس کی مختلف ادوار میں مختلف لوگوں نے مختلف توجیہات و توضیحات پیش کی ہیں۔ اس کے حصول کے مقصد سے مخلصوں کے علاوہ کئی اور لوگوں نے ذاتی اغراض و مقاصد کے لیے یا کسی کی ایما پر اس نظریے کا استحصال بھی کیا ہے جس سے نہ صرف پاکستان میں بلکہ مجموعی طور پر حل طلب پشتون قومی سوال کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ خان شہید کی سیاست بالخصوص پشتونستان کا تصور سمجھنے کے لیے تاریخ کی ورق گردانی اشد ضروری ہے۔

احمد شاہ ابدالی نے 1747 میں عظیم افغان سلطنت کی بنیاد رکھی اور قلیل مدت میں مذکورہ سلطنت کی سرحدیں اصفہان، بخارا، ہند و سندھ اور بحیرہ عرب تک پھیلا دیں۔ اسی زمانے میں ایسٹ انڈیا کمپنی سراج الدولہ کے بنگال پر قبضہ کر کے برصغیر میں اپنے قدم جما رہی تھی۔ اس خطے میں انگریزوں کے استعماری عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ احمد شاہ بابا کی مضبوط افغان سلطنت تھی۔

احمد شاہ کی وفات کے بعد اندرونی خلفشار کی وجہ سے افغان سلطنت کمزور پڑ چکی تھی۔ سکھوں نے انگریزوں کی مدد سے پشاور سمیت شمالی پشتونخوا پر قبضہ کر کے اسے پنجاب کا حصہ بنا دیا لیکن مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد انگریزوں نے پنجاب سمیت یہ علاقے سکھوں کو شکست دے کر اپنے قبضے میں لے لیے۔



پہلی اینگلو-افغان جنگ (1842-1838) کے موقع پر کوئٹہ پر قبضہ کر کے اور دوسری اینگلو-افغان جنگ (1878-1880) کے نتیجے میں 26 مئی 1879 کو گنڈمک معاہدے کے تحت پشین، سبّی (سبّی، زیارت، بارکھان، سنجاوی)، تل چوٹالی اور شورا رود کے علاقے بطور تفویض شدہ (Assigned) علاقے افغانستان سے الگ کر کے قبائلی پشتون علاقے لورالائی اور ژوب اور بلوچ علاقے ڈیرہ بگٹی اور کوہلو کو ملا کر انگریز سرکار نے یکم نومبر 1867 کو پہلے چیف کمشنر صوبے کی بنیاد رکھی۔ اس صوبے کو اصولی طور پر برٹش افغانستان کا نام دینے کے بجائے بدنیتی کی بنیاد پر برٹش بلوچستان کا نام دیا۔ اولف کیرو نے اس نا انصافی اور بے اصولی کا ذکر اپنی کتاب 'The Pathans' میں کیا ہے۔ 10 برس کے بعد خان آف قلات سے نوشکی، چاغی اور نصیر آباد کے علاقے لیز پر لے کر برٹش بلوچستان میں شامل کر دیے۔ دریں اثنا بلوچ ریاستیں لسبیلہ، قلات، مکران اور خاران بلوچستان ایجنسی کا حصہ تھیں۔

خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے برٹش بلوچستان کی اس سرزمین بے آئین میں 1907 کوعنایت اللّٰہ کاریز میں جنم لیا۔ اپنی قوم کی زبوں حالی اور در بدری کے بنیادی عوامل کا ادراک کم عمری ہی میں آپ کو ہو چکا تھا۔ انگریز سرکار کو اس کا بنیادی موجب گردانتے ہوئے ابتدائی تعلیم کے دوران ہی اٹل فیصلہ کر کے انگریز سرکار کی نوکری اپنے اوپر حرام کر لی تھی۔ جب برٹش بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) کے باسیوں کی حالتِ زار بدلنے کے لیے اصلاحات کے لیے جدو جہد کا آغاز کیا تو سرکار نے پابند سلاسل کر دیا۔ رہائی کے بعد 1931 کو موصوف لندن میں منعقد ہونے والی دوسری گول میز کانفرنس کے مدعو شرکا کو برٹش بلوچستان کے حالات سے آگاہ کرنے اور مجوزہ اصلاحات کے لیے ممبئی گئے۔ وہاں گاندھی جی، باچا خان اور محمد علی جناح سمیت ہندوستان کے دیگر چوٹی کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں۔

خان شہید عبدالصمد خان اچکزئی نے نوابزادہ یوسف علی مگسی کی جانب سے پہلی آل انڈیا بلوچ کانفرنس میں اس سبب سے شرکت کرنے سے انکار کیا تھا کہ میں پشتون ہوں، کیسے بلوچی سوال کے لیے منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کر سکتا ہوں۔ کانفرنس کے نام میں بلوچستان (برٹش بلوچستان) کا اضافہ اور اس کے اکثریتی پشتونوں کے مسائل بھی ایجنڈا میں شامل کرنے کے بعد خان شہید نے نہ صرف اس میں شرکت کی بلکہ اس کانفرنس کی صدارت بھی کی۔ مذکورہ کانفرنس میں مادری زبان وسیلہ تعلیم بنانے کی قرارداد متفقہ طور پر منظور ہوئی۔ خان شہید نے 1938 میں قائم ہونے والی برٹش بلوچستان کی پہلی سیاسی جماعت انجمن وطن کا الحاق کانگریس کے ساتھ کراچی میں اس یقین دہانی کے بعد کیا تھا کہ متحدہ ہندوستان میں لسانی، تاریخی اور جغرافیائی بنیادوں پر خود مختار صوبوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔

تقسیم ہند سے قبل ہی عبدالصمد خان اچکزئی کو حالات کی نزاکت اور برطانوی استعمار اور اس کی باقیات کے ناپاک عزائم کا ادراک ہو چکا تھا کہ برطانوی ہندوستان میں پشتونخوا وطن مستقبل میں بھی تقسیم رہے گا اور پشتونوں کی انگریز استعمار کے خلاف لازوال مزاحمت، سیاسی جدوجہد اور قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی۔ موصوف نے باچا خان اور خدائی خدمت گار تحریک کو ایک خط لکھا جو ماہنامہ پشتون میں اپریل 1947 کوشائع ہوا۔ اس خط میں انہوں نے لکھا:

'ایسے حالات میں ہم پشتونوں خصوصاً آزاد قبائل اور بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) کے پشتونوں کو چاہئیے کہ اس بات پر غور اور جتنی جلدی ممکن ہو سکے اپنی راہ کا انتخاب کریں اور اپنے مستقبل کی کوئی صورت نکالیں۔ صوبہ سرحد کے پشتونوں کو بھی چاہئیے، خواہ وہ لیگ میں ہوں یا کانگریس میں، وہ اپنی سیاسی پارٹی کے مفاد کو پشتون قوم کے مفاد پر ترجیح نہ دیں۔ ہندوستان یا پاکستان بے شک جنت ہی کیوں نہ ہو، اگر اس میں پشتون قوم کا پورا حصہ نہ ہو یا ہماری حالت اسی طرح ہو جس طرح ابھی ہے تو ہم نے اسے کیا کرنا ہے؟'

شومئی قسمت کہ پاکستان کے قیام کے بعد پشتونخوا وطن کے مخلتف حصے ایک ہی ہم جوار خطے میں ہونے کے باوجود اسی طرح منقسم رہے جیسے انگریز استعماری سرکار نے ماضی میں مختلف ناموں سے آئینی طور پر تقسیم کر کے مختلف ناموں سے الگ کر رکھے تھے۔ تقسیم ہند کے فوراً بعد انجمن وطن کا اپنی مجلس عاملہ میں نئے قائم ہونے والے ملک سے وفاداری اور اس کے لیے ہر قسم کی قربانی کا اعادہ کرنے کے باوجود اس پر پابندی لگائی گئی اور خان شہید کو قید کیا گیا۔ 6 برس قید مسلسل سے رہا ہونے کے بعد پشتون سیاسی کارکنوں کے پرزور اصرار پر خان شہید نے 1954 میں 'ورور پشتون' کے نام سے سیاسی جماعت کی داغ بیل ڈالی جس کا بنیادی مقصد پاکستان کے اندر متصل مگر منقسم پشتون علاقوں پر مشتمل پشتونستان کے نام سے ایک خودمختار صوبے کا قیام عمل میں لانا تھا مگر یہ مقصد عدم تشدد اور آئینی ذرائع کے بل بوتے پر حاصل کیا جانا تھا۔

حکومت وقت نے اسی برس بنگال سے پیرٹی (برابری) کے غیر فطری اصول تراشتے ہوئے مغربی پاکستان کے تین گورنر صوبوں، چیف کمشنر صوبہ برٹش بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) اور چند دیگر ریاستوں کو ملا کر ون یونٹ قائم کر دیا۔ 1955 کو مغربی پاکستان میں 10 ڈویژن مقرر کیے گئے جن میں برٹش بلوچستان کے پشتون علاقوں کو کوئٹہ ڈویژن اور بلوچستان سٹیٹس یونین سابقہ بلوچستان ایجنسی کے بلوچ علاقوں کو قلات ڈویژن کے نام دیے گئے۔ اس کے خلاف اور پرانے صوبوں کی بحالی کے لیے ان صوبوں میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا اور اس کے خاتمے کے لیے سیاسی جماعتوں نے نیپ (نیشنل عوامی پارٹی) بنا ڈالی جس کے دیگر اغراض و مقاصد کے ساتھ منشور کا ایک نکتہ ون یونٹ تحلیل کر کے ملک میں لسانی، تاریخی اور جغرافیائی بنیادوں پر صوبوں کے قیام کے لیے تگ و دو کرنا تھا۔

پشتونستان کے قیام اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کا مطالبہ کرنے پر خان شہید نے پورا ایوبی دور جیل میں گزارا۔ اس کے باوجود بدقسمتی کہیے یا اپنوں کی دغا بازی کہ جب 1970 میں ون یونٹ تحلیل کر کے اور نیپ کے منشور کے برخلاف پرانے تینوں صوبے بحال کرنے کے ساتھ برٹش بلوچستان (جنوبی پشتونخوا) اور بلوچستان سٹیٹس یونین کو ملا کر ایک نئے صوبے بلوچستان کا قیام عمل میں لایا جارہا تھا تو نیپ کی قیادت نہ صرف اس پر راضی تھی بلکہ خان شہید کو بھی اختلاف کرنے کے بجائے اس پر بخوشی راضی ہو جانے کا کہہ رہی تھیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تاریخی پشتون علاقوں اٹک اور میانوالی کو بھی صوبہ پنجاب کا حصہ بنا دیا گیا۔ نیپ سے اصولی اختلاف کرتے ہوئے اور تقسیم شدہ پشتونخوا وطن کو ایک آئینی وحدت میں یکجا کرنے کے لیے خان شہید نے 1970 میں نیشنل عوامی پارٹی پشتونخوا کی بنیاد رکھی۔ مذکورہ جماعت کے پلیٹ فارم سے آپ 1970 کے انتخابات میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔

عظیم خان شہید کی جہد مسلسل، قید و بند کی صعوبتیں، استعمار اور غیر جمہوری قوتوں کے کاسہ لیسوں کی دشنام طرازیاں کو صبر و تحمل سے برداشت کرنا اور پشتونستان کے مطالبے سے دستبردار نہ ہونے کی وجہ سے بالآخر جام شہادت نوش کرنا ایک ایسے پشتونستان کے قیام کے لیے تھا جو پاکستان میں منقسم پشتون قطعات پر مشتمل ایک با اختیار صوبہ ہو، جس میں رنگ، نسل، مذہب اور زبان کی بنیاد پر اقلیتوں سے نفرت نہ ہو، ایک طبقے کی دوسرے طبقے پر بالادستی نہ ہو، اس صوبے کے ہر باسی کو رائے دہی کا حق حاصل ہو، یہاں کی غالب اکثریت کی مادری زبان 'پشتو' سرکار، تعلیم اور کاروبار کی زبان ہو اور ابتدائی تعلیم مادری زبان میں یہاں کے ہر باشندے کے لیے لازمی ہو۔



عبدالصمد خان اچکزئی شہید کے پشتونستان کا قیام ہر لحاظ سے پاکستان میں پشتون قوم کا اسلامی، جمہوری اور انسانی حق ہے اور ملک کے ہر عقلیت پسند، بشر دوست اور جمہوریت پسند کو قابل قبول ہے۔ امریکی پولیٹیکل سائنٹسٹ سموئیل پی ہنٹنگٹن اپنی شہرہ آفاق تصنیف 'The Clash Of Civilization ' میں لکھتے ہیں کہ Decolonization کے بعد دنیا کے نقشے پر کئی کثیر القومی ریاستیں وجود میں آئیں جو اپنی بقا کے لیے State Nationalism کو فروغ دے رہی تھیں لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کا موجودہ دور آنے کے بعد لامحدود معلومات تک رسائی حاصل ہونے کے سبب ان ریاستوں کی مخلتف اقوام میں Nationhood کا تصور ماضی کے مقابلے میں مضبوط ہوا ہے اور مذکورہ ممالک میں شناخت کا بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس کا بہترین حل یہی ہے کہ ان کثیر القومی ریاستوں میں لسانی بنیادوں پر خودمختار آئینی وحدتوں کا قیام عمل میں لایا جائے جہاں رہنے والی اقوام کی تاریخ، ثقافت اور زبان محفوظ رہے۔ اسی بحران کے باعث پاکستان ایک مرتبہ دو لخت ہوا ہے۔ مستقبل میں مزید بحرانوں سے بچنے کے لیے منقسم پشتون علاقے پر مشتمل ایک با اختیار صوبہ تشکیل دیا جائے اور اس ملک میں بسنے والی تمام اقوام کو برابر کے شہریوں کے حقوق دیے جائیں اور انہیں ان کے وسائل پر پورا پورا حق دیا جائے۔