ذکر ہورہا ہے 1970 کا۔ ہدایتکار مکل دیو نے تینوں کو فلم کی یہ سچوئشن بتائی تھی کہ ہیرو اور ہیروئن پیار کی وادی میں کھوئے ہوئے ہیں اورپھر اچانک ہیروئن ملنے کا وعدہ کرکے اس سے جدائی کی ضد کررہی تھی لیکن ہیرو جانے نہیں دے رہا ۔ ہیرو راجیش کھنہ تھے جبکہ ہیروئن آشا پاریکھ۔ راجیش کھنہ اُس وقت سپر اسٹار کا درجہ رکھتے تھے، جن کی لگاتار سولہ فلمیں سپر ڈوپر ہٹ ہوئی تھیں۔ ان فلموں کی کامیابی میں جہاں کہانی اور راجیش کھنہ کی اداکاری نے اہم کردار ادا کیا، وہیں گانے بھی رسیلے اور دلوں کے تار چھیڑنے والے ایسے ہوتے تھے، جنہوں نے راجیش کھنہ کو دیگر اداکاروں سے ممتاز بنا کر رکھ دیا تھا۔ کشور کمار بھی ڈوب کر گلوکاری کرتے کہ راجیش کھنہ پر فلمایا گیا ہر گیت، راتوں رات ہٹ ہوجاتا۔ فلم ساز راجیش کھنہ کی فلموں پر تجوریاں کھول کر سرمایہ کرتے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ چند ہی دنوں میں ان کا سرمایہ دگنا ہوجائے گا۔
لکشمی کانت پیارے لال کو ایک بار پھر آنند بخشی نے ایک مکھڑا سنایا۔ دونوں نے طبلہ اور ہارمونیم سنبھالا اور بولوں پر دھن بنانے کی پھر سے کوشش کی۔ چند ہی لمحے بعد تینوں ایک مقام پر آکر پھر اٹک گئے۔ آنند بخشی بھی جیسے اب اکتاہٹ کا شکار ہوگئے تھے۔ جبکہ لکشمی کانت پیارے لال کی کوشش تھی کہ اس نشست کے دوران وہ کوئی نہ کوئی مکھڑا ایسا تیار کرلیں جس کے باقی بول آنند بخشی کے لیے آسان ہوجائیں لیکن تینوں ہی منزل سے کافی دور تھے۔ کوشش یہی تھی کہ گانا ایسا ہونا چاہیے جو راجیش کھنہ پر فلمائے گئے اب تک کے گیتوں کے ہم پلہ ہو۔
دوپہرسے شروع ہونے والی یہ نشست اب شام کے گہرے سائے میں ڈھل رہی تھی۔ لکشمی کانت پیارے لال بھی بے زاری کا شکار نظر آرہے تھے۔ جنہوں نے آنند بخشی کو چند لمحے کے لیے تنہا بھی چھوڑا لیکن نغمہ نگار کو نجانے کیسے اور کیوں ’آمد‘ نہیں ہورہی تھی۔
اور پھر ایک مقام وہ آیا جب آنند بخشی نے سوچ لیا کہ آج ان کا ذہن اور قلم دونوں ہی کام نہیں کررہے۔ اسی لیے انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ اب مزید محنت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ جبھی آنند بخشی نے اپنی طرح پریشان اور حیران موسیقار جوڑی سے کہا ’آج کچھ بات بن نہیں رہی، اچھا تو ہم چلتے ہیں۔‘ لکشمی کانت نے برجستہ دریافت کیا ’پھر کب ملو گے؟‘ اس سوال پر کمرے میں چند سکینڈز کے لیے خاموشی طاری ہوگئی۔ اچانک دونوں نے ایک دوسرے کو چونک کر دیکھا اور زور کا قہقہہ لگایا۔ جس مکھڑے کی وہ تلاش میں تھے، وہ انہیں مل گیا تھا۔
بس پھر کیا تھا، نغمہ نگار آنند بخشی نے قلم اور کاغذ سنبھالا اور پھر مکھڑے سے مطابقت رکھتے ہوئے باقی بول بھی فٹا فٹ لکھ ڈالے۔ لکشمی کانت پیارے لال نے بھی دھن بنانے کی تیاری کی اور چند گھنٹوں کی محنت کے بعد پورے گانے کی دھن بن چکی تھی۔ گانے کو ریکارڈ کیا گیا کشور کمار اور لتا منگیشکر کی آواز میں۔ جنہوں نے دھن اور بولوں کے ساتھ انصاف کرکے اس میں اور رنگ بھردیے۔ ہدایتکار کو سنایا گیا تو انہوں نے بھی اس گیت کی عکس بندی میں تمام تر خوبصورتی کو نمایاں کردیا۔ یہ اور بات ہے کہ عکس بندی کے دوران سورج کی آنکھ مچولی چلتی رہی لیکن اس کے باوجود کئی گھنٹوں بعد آخر کار یہ گیت شوٹ ہو ہی گیا۔
فلم کی ریلیز سے پہلے جب سنیما گھروں میں ’آن ملو سجنا‘ کا ٹریلر چلتا تو اس گیت کے آتے ہی فلم بین خوب شور مچاتے۔ جو اس جانب اشارہ تھا کہ یہ گاناعوامی مقبولیت حاصل کرنے والا ہے۔ دسمبر 1970 میں جب ’آن ملوسجنا‘ پردہ سیمیں کی زینت بنی تو گیت ’اچھا تو ہم چلتے ہیں‘نے مقبولیت کے تمام تر ریکارڈتوڑ ڈالے ۔ فلم کے اسی گیت کو سب سے زیادہ پذیرائی ملی جبکہ اس تخلیق نے باکس آفس پر راجیش کھنہ کی مقبولیت اور شہرت کو برقرار رکھا۔لیکن بہت کم لوگوں کے علم میں آج تک یہ بات ہے کہ ’چھا تو ہم چلتے ہیں‘ کس قدر محنت اور مشقت سے تیار ہوا تھا۔ جس کی تیاری پر لکشمی کانت پیارے لال اور آنند بخشی ایک موڑ پر ہمت ہار چکے تھے۔
https://www.youtube.com/watch?v=CeUyzVMwJTI