ملک کے معاشی، کاروباری اور تعلیمی معمولات کرونا سے بری طرح متاثر ہوئے اسکول، کالج، یونیورسٹیز بند کرنا پڑی مگر آخر کب تک؟ بلآخر طویل بندش کے بعد آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیمی سلسلہ کا آغاز ہوا محدود وسائل اساتذہ کا آن لائن کلاسز کے بارے نا تجربہ کار ہونا ملک کے طول و عرض میں انٹرنیٹ کی نا کافی یا کمزور رسائی طلباء کے پاس مطلوبہ سہولیات اور وسائل کا نہ ہونا اس نئے اور ناگزیر تعلیمی سلسلے کی بڑی رکاوٹیں بن کر سامنے آئیں۔ ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان کا تعلیمی نظام جو پہلے ہی کمزور بنیادوں پر کھڑا تھا رہی سہی کسر کرونا نے پوری کردی۔ لولے لنگڑے انداز اور نیم دلانہ آغاز کے باوجود آن لائن کلاسز کے بارے میں نہ تو وزارت تعلیم نے کوئی مربوط اور مؤثر پالیسی وضع کی اور نہ ہی ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹیز کی مشاورت اور مدد سے در پیش چلینج سے نمٹنے کیلئے کسی قسم کا نظام تیار کیا۔ کرونا کی عالمی وبا کے دوران چلنے والے تیسرے سمسٹر کے اختتام تک بھی افراتفری اور گوں مگوں کی کیفیت ہنوز برقرار ہے۔
یونیورسٹیز نے اکتوبر 2020 سے جس سمسٹر کا آغاز کیا اس کے دوران ابتداء میں آن کیمپس کلاسز کا اجرا کیا گیا، جہاں کرونا ایس او پیز کے بارے لاپرواہی اور غیر ذمہ داری دیکھنے میں آئی۔ مرض کے پھیلاؤ کی خبروں کو چھپانے کی کوشش کی گئی اور بات مکمل طور پر آن لائن کلاسز تک جا پہنچی۔ بھاری فیسیں وصول کرنے والی نجی یونیورسٹیز ہوں یا عوامی ٹیکس کے پیسے سے چلنے والی سرکاری جامعات اپنے روایتی، تساہل پسندانہ روش سے باز نہ آئے۔ فیکلٹیز جوابدہی کے احساس سے یکسر عاری ہوکر من مانی پر اتر آئیں، دو شفٹوں میں چلنے والی جامعات صبح کی شفٹ میں داخل طلباء کو سارا سارا دن اور بعض اوقات رات گئے کلاسز لینے پر مجبور کرتے۔ جدید طریقہ تدریس سے ناکافی اور کمزور آگاہی عجب تماشہ برپا کئے رکھتی، خانہ پری کیلئے حاضری لگا کربعض اساتذہ کلاسز چھوڑ دیتے جب کہ طلباء اس دوران موج مستی اور وقت گزاری کیا کرتے۔
پڑھنے والے طلباء اس صورتحال سے شدید مایوس اور ذہنی کوفت کے شکار رہے مگر صورتحال کے خلاف کسی متفقہ شکایت سے گریز کرتے رہے، وجہ؟ اساتذہ کی جانب سے منفی ردعمل اور ممکنہ سنگین نتائج نے طلباء کو خاموش رہنے پر مجبور کئے رکھا۔ جیسے تیسے، روتے دھوتے مڈ ٹرم امتحانات کے مرحلے کو بد نظمی، نقل اور دو نمبری سے گزار دیا گیا اس دوران ایچ ای سی خاموش تماشائی بنا تنخواہیں بٹورتا رہا جبکہ جامعات کی اکیڈمک کونسلز مجرمانہ چشم پوشی کی مرتکب ہوئیں اس قدر مہنگی تعلیم سے متعلق ایسی روش نہایت قابل مذمت اور قابل گرفت تھی مگر بدقسمتی سے والدین اور طلباء نے کوئی آواز نہ اٹھائی اور اب جبکہ فائنل امتحانات کا مرحلہ درپیش ہے طلباء احتجاج کررہے ہیں، پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے یہ مناظر در حقیقت ایچ ای سی کی ناقص کارکردگی اور جامعات کے ناکام آن لائن سسٹم کی گواہی دے رہے ہیں۔
دوسری جانب سمسٹر کے دوران طلباء کی جانب سے اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے متعلق نا مناسب طرز عمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ بہرکیف تمام قباحتوں اور مشکلات کے باوجود طلباء کی جانب سے آن لائن امتحانات کی کوئی اخلاقی دلیل اور جواز دینا نہایت مشکل ہوگا صورتحال جس نہج تک پہنچ چکی ہے اس کی وضاحت کیلئے ایچ ای سی کو سامنے آنا چاہئے اور جامعات کو مذکورہ مسائل کے حل کیلئے جوابدہ بنانا چاہئے۔ اس ضمن میں چند سوالات اہمیت کے حامل ہیں: عالمی وبا کے دوران تعلیمی شعبے کو در پیش چلینجز سے نمٹنے کیلئے متبادل نظام متعارف کرانے کے دوران سنگین کوتاہیاں کیوں کی گئی؟ فیکلٹی ٹریننگ پروگرام کو آن لائن ایجوکیشن سسٹم کے تحت وسائل اور سہولیات کی فراہمی کیلئے کیا اقدامات اٹھائے گئے؟ آن لائن کلاسز کے دوران مانیٹرنگ اور ٹیچرز ایویلو یشن کیلئے کیا طریقہ کار اختیار کیا گیا؟ نئے نظام سے متعلق طلباء کی مشکلات اور شکایات کے ازالے کیلئے کیا حکمت عملی اپنائی گئی؟ تمام انرولڈ طلباء کیلئے مذکورہ نظام تعلیم سے بلا تخصیص اور بآسانی مستفید ہونے کیلئے کیا انتظامات بروئے کار لائے گئے؟ طلباء کے آن لائن امتحانات کے مطالبے کو فی الوقت تسلیم کرلیا جائے تو پہلے سے تباہ حال تعلیمی نظام پر اس کے کیا نتائج مرتب ہونگے؟
درپیش صورتحال کا تقاضا تو یہ تھا کہ ممکنہ آن لائن امتحانات کے پیش نظر کانسپٹ بیسڈ امتحان لینے کی تیاری کی جاتی مگر افسوس فرسودہ اور گھسا پٹا تعلیمی نظام ہرگز بھی اس کا متحمل نہیں ہے ایک حل یہ بھی ہوسکتا کہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ طلباء کو جس فارمولے کے تحت پرموٹ کیا گیا اسکا جزوی اطلاق جامعات پر بھی کردیا جائے؟ جو بھی ہو، صورتحا ل مستقبل کے بارے میں اچھی خبر نہیں دے رہی۔ ایڈہاکزم، ڈانگ ٹپاؤ اور پیسہ بٹورو ذہنیت پاکستانی طلباء کے مستقبل سے کھیل رہی ہے وفاقی اور صوبائی حکومتیں ایک طرف شعبہ تعلیم کو اپنی ذمہ داری سمجھنے سے گریز کررہی ہیں اور ستم بالائے ستم نجی شعبے کی جانب سے تعلیم کے نام پر ہونے والی لوٹ مار پر بھی چپ سادھے ہوئے ہیں ایچ ای سی کو مانیڑنگ باڈی ہونے کے ذمہ داری پوری کرنا ہوگی جامعات کی مدد سے کرونا کے باعث تعلیمی نظام کو در پیش چلینجز سے نمٹنے کیلئے منظم اور مربوط لائحہ عمل ترتیب دینا ہوگا، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جدید ٹیکنالوجی کی بلا تعطل فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا، سستے اور معیاری گیجٹس تک طلباء کی رسائی آسان بنانا ہوگی کیونکہ معیاری تعلیم کی لازمی فراہمی کے بنا کسی بھی قسم کی ترقی کا ہدف حاصل کرنا ناممکن ہے