نسیم سحری کے چھو جانے سے نورین کو اس کا حسن گدلا ہوتا محسوس ہوتا۔ سارا سارا دن فون پہ مصروف رہتی۔ اک دن ملیحہ نے اس کی اماں کی باتیں سنیں۔ ایسے محسوس ہوتا جیسے کسی آدمی سے باتیں کر رہی ہو اور اس کو گھر بلانے پہ اسرار کر رہی تھی۔
ملیحہ تو گھر کی دہلیز بھی بھول چکی تھی۔ باہر، اندر آنے جانے پہ روک ٹوک تھی، سخت نگرانی الگ سے۔
اک دن ملیحہ کو گھر کے مہمان خانے سے کسی مرد کے چہکنے اور اس کی اماں کے ساتھ بولنے کی آوازیں آ رہی تھیں، مگر ہلکی ہلکی آواز میں۔ اس نے مہمان خانے کے دروازے سے کان لگا کر سنا تو اس کی اماں سے کوئی پیار بھری مگر انتہائی گرم گرم باتیں کر رہا تھا۔ اور نورین بھی اس سے کراری باتیں جواباً کر رہی تھی۔ ایسی باتیں جو کسی نوجوان لڑکی کو پل بھر میں چٹکا دیں۔ اس دن ملیحہ بھی دہک ہی گئی تھی۔ دروازے میں سوراخ سے ملیحہ نے اندر جھانکا تو کمرے کی بتی بند نظر آئی مگر روشن دان سے روشنی ، اندھیرے کو چیرتی ہوئی، چھن چھن کرتی ہوئی سپاٹ لائٹ کی طرح چارپائی پہ پڑ رہی تھی۔ مگر وہاں کا منظر ہوش ربا تھا۔ اک بیس بائیس برس کا لڑکا، کپڑوں سے بے نیاز، نورین کے مرمریں مگر تجربہ کار جسم سے کسی بچے کی طرح لپٹا ہوا تھا۔
بے سود پڑا تھا، بجھی ہوئی کچی آگ کی طرح، جس میں سے صرف دھواں اٹھ رہا ہو۔ نورین حاشر سے کہہ رہی تھی، میں نے تم کو کہا تھا تم میں اتنا پانی نہیں ہے۔ تم اس قابل ہی نہیں کہ میری آگ بجھاؤ۔ اس میدان کا شہسوار بننے کے لیے، راز اور داؤ پیچ سیکھنے کے لیے اک عمر چاہیے۔ اک کنجی اس نسوانی تالے کو کھولنے کے لیے ناکافی ہے۔ حاشر نورین کو ترکی بہ ترکی جواب دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ تم سیکھاو مجھے یہ سربستہ راز۔ یہ جنسی کھیل۔ یہ اکھاڑ پچھاڑ۔ اتنے میں نورین نے حاشر سے پھر سے اک بازی لگانے کو کہا۔ مگر بازی اتنی جلدی نہیں لگتی۔ رفتار پکڑنے میں کچھ وقت چاہیے تھا جو حاشر کو درکار تھا۔
ملیحہ کو پہلے تو اس کی ماں کی اس حرکت پہ کافی دکھ ہوا مگر جب وہ منظر، وہ خیال ملیحہ کے ذہن میں کوندتا تو اس کا رواں رواں پھڑک سا جاتا۔ بجلیاں اس کو چوتڑوں میں کڑکتی محسوس ہوتیں۔ اس کیفیت میں وہ سرہانہ اپنی رانوں میں دبا کر زور زور سے ملتی۔ آخر وہ کر بھی کیا سکتی تھی۔