پیارے پاکستانیو! گھبرانے کا وقت ہوا چاہتا ہے

03:26 PM, 1 Feb, 2021

زین سہیل وارثی

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل جرمنی کی ایک غیر سرکاری تنظیم ہے جو 1993ء میں قائم کی گئی، اس کے قیام کا بنیادی مقصد عالمی سطح پر معاشرہ میں بدعنوانی کا انسداد ہے، نیز عالمی بدعنوانی سے نمٹنے اور اسکی وجہ سے ہونے والی مجرمانہ سرگرمیوں کے سدباب کے لئے کاروائیاں کرنا ہے۔ اس غیر سرکاری و غیر منافع بخش تنظیم کی دو انتہائی اہم مصنوعات ہیں جن میں عالمی بدعنوانی بیروومیٹر (عالمی کرپشن بیوروومیٹر/GCB) اور بدعنوانی پرسیپشن انڈیکس ( کرپشن پرسیپشن انڈیکس/CPI) ہے۔ ان کی رپورٹس کو ہر سال جاری کیا جاتا ہے اور دنیا میں موجود تمام ممالک کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ اس کا طریقہ کار جو انکی ویب سائٹ پر موجود ہے اسکے مطابق سب سے پہلے اعدادوشمار کو اکٹھا کرنے کے لئے وسائل درکار ہوتے ہیں، پھر ان اعدادوشمار کا معیار بنایا جاتا ہے، اعدادوشمار کو مجموعی طور پر جانچہ جاتا ہے، اور آخر میں کمی بیشی یا کوتاہی کا عندیہ دیا جاتا ہے کہ اعدادوشمار پیش تو کئے گئے ہیں مگر کمی بیشی یا کوتاہی کا عنصر کتنے فیصد ہے۔ اس طرح کے تمام سرویز کے مستند اور شفاف ہونے کا انحصار ان کے نمونہ جات (سیمپل) حاصل کرنے کے طریقہ کار پر ہے۔



الحمداللہ، پہلے 50 ممالک کی فہرست میں صرف 4 اسلامی ممالک شامل ہیں، جن میں متحدہ عرب امارات 21 ویں، دولتہ القطر 30 ویں، برونائی دارالسلام 35 ویں اور سلطنت عمان 49 ویں نمبر پر موجود ہے۔ باقی 46 ممالک جو اس فہرست میں موجود ہیں وہ تمام یہودی، نصرانی اور لادین ریاستیں ہیں۔ پہلے دس ممالک میں نیوزی لینڈ، ڈینمارک، فن لینڈ، سوئٹزرلینڈ، سنگاپور، سویڈن، ناروے، نیدرلینڈ، لیکسمبرگ، اور جرمنی شامل ہیں، ان میں سے اکثریت کی حکمران خواتین ہیں، ان تمام سربراہان مملکت کا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں، کوئی بھی رجعت پسند خیالات سے تعلق نہیں رکھتا ہے، تمام ممالک میں مہ خانہ و قحبہ خانہ بکثرت موجود ہیں۔ مگر بدعنوانی پھر بھی سب سے کم یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہمیں بحیثیت قوم ضرور دریافت کرنا چاہیے۔ جو اسلامی ممالک بھی اس فہرست میں شامل ہیں وہ بھی کافی حد تک آزاد خیال ہیں۔


حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔


رشوت کی اگر عرف عام میں تعریف کریں تو اسے بدعنوانی کہا جا سکتا ہے۔ ہم بحیثیت قوم پیدائشی بدعنوان ہیں، برتھ سرٹیفیکیٹ سے لیکر ڈرائیونگ لائسنس، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک بنوانے کے لئے سرعام رشوت دیتے اور لیتے ہیں بلکہ اب یہ چائے پانی کے طور پر ہماری روایات کا حصہ ہے، اور تاقیامت رہے گی۔

28 جنوری 2021ء کو ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے اپنے سالانہ سروے میں اس بات کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں ایماندار، نیک، شریف اور خوبرو قیادت کے برسراقتدار میں آنے کے بعد بھی پاکستان نے بدعنوانی میں 4 درجہ تنزلی کا فاصلہ پچھلے ایک سال میں طے کیا ہے اور پاکستان اب 124 ویں نمبر پر براجمان ہے جبکہ 2017ء میں پاکستان 117 ویں نمبر پر، 2018ء میں 117 ویں، اور 2019ء میں 120 ویں نمبر پر تھا۔
2018ء تک ایک نااہل، بدعنوان اور غدار جماعت کی حکومت تھی، نااہل وزیراعظم اور نااہل حکومتی ارکان حکومت کا نظم و نسق چلا رہے تھے۔ میرے کپتان ان دنوں اکثر ان رپورٹس کا حوالہ دیا کرتے تھے، اور ان رپورٹس میں اول درجہ پر آنے والے ممالک کی سیاسی و اخلاقی اقدار کا بھی بکثرت حوالہ دیتے تھے۔



اب ماشاءاللہ بفضل رب ذوالجلال میرے کپتان کی حکومت ہے اور میرے کپتان کی انتھک محنت کی بدولت ہم نے 117 سے 124 درجہ تک تنزلی میں ترقی کی ہے۔ سب سے اہم مثبت خبر یہ ہے، کہ جہاں ڈالر کے درجات اس حکومت نے بلند کئے ہیں، وہیں بدعنوانی کے درجات بھی بلند ہوئے ہیں، کیونکہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اس درجہ کو مصنوعی طور پر روکا ہوا تھا۔ حالانکہ بقول کپتان وہ بس آفس جاتے ہیں اور پھر گھر جا کر بھی آفس کا کام کرتے ہیں، نیز حقیقی معنوں میں غریب کا درد بھی رکھتے ہیں اس لئے انھوں نے لنگر خانہ اور سرائے خانہ خاص کھلوائے ہیں۔ جبکہ میرے محبوب قائد اور انکے بیشتر حکومتی ارکان شام 6 بجے کہ بعد میسر نہیں ہوتے تھے۔



سب سے زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ اب تک راوی اربن ڈویلپمنٹ اور کراچی میں دو  نئے جزائر کی تعمیر کے علاوہ اس حکومت نے کوئی ایک میگا پراجیکٹ نہیں شروع کیا، بلکہ جن میگا منصوبوں (1 کروڑ نوکریاں، 50 لاکھ گھر، نظام میں اصلاحات، بیوروکریسی میں اصلاحات، یکساں تعلیمی نظام، معاشی و معاشرتی انصاف) کا اعلان میرے کپتان نے قبل از انتخابات کیا تھا وہ بھی ابھی تک مکمل نہیں ہو سکے۔ ان میں سے کسی منصوبہ میں حکومت نے ذاتی حیثیت میں کوئی سرمایہ کاری نہیں کی کیونکہ ان تمام منصوبوں کے لئے سرمایہ کاری درکار نہیں بلکہ چند ایک اہم انتظامی امور کی اصلاح تھی اور یہ منصوبہ پایائے تکمیل تک پہنچ جانے تھے۔ لیکن نا منصوبہ جات مکمل ہوئے ہیں،  نا ہی بدعنوانی میں کوئی کمی واقع ہوئی ہے اور نا وعدہ ایفا ہوئے ہیں۔
بقول مرزا اسداللہ خان غالب
ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا


تماشا یہ ہے کہ میرے کپتان کے اوپننگ بلے باز جناب ڈاکٹر شہباز گل نے اس رپورٹ کی معلومات پر سوالات اٹھائے ہیں اور سنا ہے کہ انھوں نے اس بدصورت تصویر میں بھی رنگ بھر دئیے ہیں کہ یہ ڈیٹا (معلومات) پرانے حکومتی ادوار سے ہے، مزید حماقتوں میں انھوں نے اضافہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ رپورٹ کا جب اردو ترجمہ آئے گا تو تحریک انصاف سرخرو ہو جائے گی، اور تمام حزب اختلاف کو اس رپورٹ کی بنیاد پر سزائیں سنا دی جائیں گی۔ خس کم جہاں پاک یعنی نا رہے گا بانس نا بجے گی بانسری انھیں کوئی ذی شعور یہ بات بتلائے کہ جناب بانس حکومت کے پاس ہوتا ہے اور بانسری عوام الناس انتخابات میں بذریعہ ووٹ بجاتی ہے۔ لیکن ان کا اس سب سے کیا تعلق جس دن حکومت ختم ہوگی اس دن یہ برآمدی (امپورٹڈ) حضرات واپس اپنے اصل مقامات و مضافات کی طرف لوٹنا شروع ہو جائیں گے۔ جیسے شوکت عزیز و ہمنوا لوٹ گئے تھے۔ وزیراعظم صاحب نے سب سے اچھا جواب دیا ہے کہ میں نے رپورٹ ابھی نہیں پڑھی، پڑھوں گا تو مزید حماقتوں میں اضافہ کروں گا فی الحال ذرائع ابلاغ کے لئے ڈاکٹر شہباز گل پیش خدمت ہیں۔

خیر رپورٹ پڑھنے کے بعد بھی ان کے اقوال زریں کچھ اس طرح ہونے ہیں "سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں، اور یہ مافیا جتنا مرضی زور لگا لے چاہے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ذریعہ ہی لیکن میں کسی کو این آر او نہیں دوں گا، شروع میں تو ہمیں سمجھ ہی نہیں آئی کہ کیا کرنا ہے، اب آگئی ہے تو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ ہم بدعنوانی میں ترقی کر رہے ہیں، یہ سب پچھلی حکومتوں کا کیا دھرا ہے، نیز ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کو حزب اختلاف نے پیسہ دئیے ہیں، رہ گئی کارکردگی تو اس کا اللہ مالک ہے کبھی نا کبھی تو بہتر ہو ہی جائے گی اس دور حکومت میں نا سہی اگلا دور حکومت سہی. 

مزیدخبریں