انگریزی اخبار ڈان میں شائع پونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ نواز کے اندرونی اور شریف خاندان کے قریبی ذرائع سے ہونے والی بات چیت سے پتا چلتا ہے کہ حکومت نے جس قسم کی تفصیلی میڈیکل رپورٹس مانگی ہیں وہ شاید دستیاب نہ ہوں کیونکہ سابق وزیر اعظم کو ابھی تک کسی ایسے طریقہ کار سے گزرنا باقی ہے جو انہیں ڈاکٹروں نے تجویز کیا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سابق وزیراعظم کو دل کے نئے طریقہ کار سے گزرنے کا مشورہ دیا گیا تھا جو خطرے سے خالی نہیں ہے، اس مسئلے کو کووڈ 19 نے مزید پیچیدہ کردیا جس کی وجہ سے برطانیہ میں اگر سبھی نہیں تو ایسی کئی سرجریوں کو ملتوی کردیا گیا تھا جن کی جلدی نہیں تھی۔
تاہم ڈاکٹر یاسمین راشد کے خیال میں نواز شریف کے پاس علاج کے لیے کافی وقت ہے چاہے کووڈ ہو یا نہیں، اگر وہ دو سال تک صرف دواؤں پر زندہ رہ لیے تو ان کی حالت سنبھلی ہوئی ہے اور پاکستان واپس جانے کے لیے ٹھیک ہے۔
پنجاب کی وزیر صحت اس سارے عمل کا ایک اہم حصہ رہی ہیں جس میں نواز شریف کو علاج کے لیے جاتے ہوئے دیکھا اور بعد میں اس امید پر ان کی حالت پر نظر رکھے ہوئے تھیں کہ وہ پاکستانی عدالتوں میں اپنے خلاف الزامات کا سامنا کرنے کے لیے واپس آ سکیں گے۔
یاسمین راشد بتاتی ہیں کہ کارڈیک کیتھیٹرائزیشن، جس عمل سے سابق وزیر اعظم کو بیرون ملک جانے کے وقت گزرنا تھا، پاکستان میں بھی کیا جا سکتا تھا لیکن نواز شریف نے اصرار کیا کہ وہ برطانیہ میں کرانے کو ترجیح دیں گے جہاں پہلے ہی دو بار ان کا آپریشن ہو چکا ہے۔
خیال رہے کہ نواز شریف نومبر 2019 سے برطانیہ میں ہیں، جب جنوری 2020 ان کے طبی ٹیسٹس ہورہے تھے تو ڈاکٹروں نے جائزہ لیا تھا کہ کیا انہیں دل کے آپریشن، بائی پاس یا اسٹنٹ کی ضرورت ہوگی۔
تاہم ان کے ہیماٹولوجیکل مسائل کی وجہ سے خاندانی ذرائع نے اس وقت کہا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کی پیچیدگیوں کو دور کرنے کے لیے امریکا کے سفر پر غور کیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے اندرونی ذرائع سے کی گئی بات چیت میں انکشاف ہوا کہ نواز شریف کو دل اور خون کے متعدد مسائل ہیں۔
سابق وزیراعظم کے ماضی میں 2 مرتبہ (2010 اور 2016 میں) دل کے آپریشنز ہوئے اور 2019 میں تھرومبوکائیٹوپینیا سے گزرے جب انہیں پی ٹی آئی حکومت نے علاج کے لیے بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی تھی۔
جس کے بعد انہیں دل کے تیسرے آپریشن کی تجویز دی گئی تھی اور بظاہر لگتا ہے کہ اس کے بغیر سابق وزیراعظم کے پاکستان آنے کا امکان نہیں۔
شریف خاندان کے ذرائع نے بتایا کہ چونکہ اس طریقہ کار کے لیے تجربہ کار سرجنز کی ضرورت ہوتی ہے، خاص طور پر ان پیچیدگیوں کے پیش نظر جو انہیں گزشتہ طبی پروسیجرز میں ہوئیں اس بات کا امکان نہیں کہ خاندان ان کا علاج پاکستان میں کرائے گا۔
اس کے بعد اس کے پاسپورٹ کا مسئلہ ہے جس کی معیاد ختم ہو گئی ہے جو کہ برطانیہ سے باہر سفر کو مشکل بنا دے گا۔
یاد رہے کہ حکومت پنجاب نے نواز شریف کے ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس کی جانب سے جمع کرائی گئی میڈیکل رپورٹس کے طور پر جمع کرائے گئے دستاویز کا جائزہ لینے اور مریض کی صحت سے متعلق طبی رائے دینے اور پاکستان واپسی کی صورتحال دیکھنے کے لیے حال ہی میں 9 رکنی خصوصی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا۔
تاہم، بورڈ کے ارکان نے دعویٰ کیا کہ وہ نواز شریف کی موجودہ طبی تشخیص، خون کی رپورٹس، امیجنگ کے نتائج اور طریقہ کار کی تفصیلات کے بغیر ان کی حالت یا سفر کرنے کی صلاحیت کے بارے میں کوئی منظم رائے نہیں دے سکتے۔
اگست 2021 میں ڈاکٹر لارنس نے تین صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ لکھی جس میں کہا گیا کہ 'نومبر 2019 میں ان کو علاج کے لیے ریفر کیا گیا کیونکہ ان کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ بیماری اور اس سے منسلک پیچیدگیوں کے علاج کے لیے مخصوص مہارت، ٹیکنالوجی اور تکنیکیں دستیاب نہیں تھی۔'
پارٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ لندن میں رپورٹوں میں صرف طبی عمل اور طریقہ کار کی وضاحت کی گئی ہے، وہ سیاسی نہیں ہیں اس لیے ان میں تجزیہ یا ریاستی خطرات شامل نہیں ہیں، مثال کے طور پر اگر آپ نے تین ڈاکٹروں سے معائنہ کرایا ہے تو ان کے علاج کے لیے تین بالکل مختلف طریقے ہوں گے۔
جس کے بعد ڈاکٹر عدنان خان پاکستان میں شریف خاندان کے معالج جو نواز کے ساتھ صحت کے دورے پر گئے ہیں، نواز شریف کی صحت کی حالت کے بارے میں ایک خط لکھیں گے اور اسے بورڈ کو فراہم کریں گے۔
تاہم ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ یہ میڈیکل بورڈ کے لیے کافی نہیں ہوگا۔