تفصیلات کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان پر مشتمل اسلام آباد ہائی کورٹ کے ڈویژن بینچ نے ریٹائرڈ لفٹیننٹ کرنل انعام الرحیم کی درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزار نے نشاندہی کی کہ احتساب بیورو نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 25 جنوری 2018 کے واضح حکم کے باوجود بھی سابق صدر کے خلاف کرپشن کے الزامات کی تحقیقات نہیں کی۔
نیب چیئرمین کے خلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے کے ذریعے قومی احتساب بیورو کے آرڈیننس (این اے او) 1999 میں موجود ابہام کو دور کردیا تھا جس کے لیے انسداد بدعنوانی کا ادارہ بھاری کرپشن کی شکایات کے باوجود ریٹائرڈ فوجی افسران کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا بہانہ بناتا تھا۔
درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ آئی ایچ سی نے واضح کیا تھا کہ جنرل پرویز مشرف سرکاری عہدے پر خدمات انجام دے رہے تھے ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ کیا بیورو کی جانب سے 25 جنوری 2018 کے حکم کو چیلنج کیا گیا ہے جس پر درخواست گزار نے نفی میں جواب دیا اور کہاکہ حکم کو حتمی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔
بعدازاں عدالت نے چیئرمین نیب سے اس معاملے پر رپورٹ طلب کرتے ہوئے کارروائی 14 فروری تک ملتوی کردی۔
انعام الرحیم جو ایک وکیل بھی ہیں، نے نیب میں ریٹائرڈ جنرل کی جانب سے کاغذات نامزدگی میں ظاہر کیے گئے اثاثوں پر آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تحقیقات کرنے کی درخواست جمع کرائی تھی، جس پر 2013 میں بیورو نے انعام الرحیم کو آگاہ کیا کہ اختیارات کی کمی کی وجہ سے ان کی شکایت پر کارروائی نہیں کی جاسکتی کیوں کہ پرویز مشرف کو مسلح افواج کے رکن ہونے کی وجہ سے احتساب آرڈیننس میں کارروائی سے استثنٰی حاصل ہے۔
تاہم فروری 2018 میں جاری کیے گئے تاریخی فیصلے میں عدالت نے کہا تھا کہ ’بیورو کے پاس درخواست گزار کی شکایت پر غور کرنے کا اختیار موجود ہے اور غور و خوض کے بعد اگر یہ رائے سامنے آئے کہ آرڈیننس 1999 کے تحت بادی النظر میں جرم کیا گیا ہے تو یہ نیب کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تحقیقات کرتے ہوئے ضروری اقدامات اٹھائے۔
درخواست گزار نے یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ جنرل پرویز مشرف نے بطور چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر مملکت ملک کے دفاع اور شہریوں کی حفاظت کے لیے اٹھائے گئے حلف کی خلاف ورزی کی۔
درخواست میں سابق آمر رہنما پر 1999 کی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سینیئر فوجی افسران کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان میں ہزاروں ایکڑ اراضی تقسیم کرنے کا الزام بھی لگایا گیا ہے۔
درخواست میں مزید الزام لگایا گیا ہے کہ کراچی میں 18 ایکڑ کرکٹ اسٹیڈیم کی زمین فوج کے اعلیٰ افسران کے لیے رہائشی اسکیم میں تبدیل کردی گئی۔
انعام الرحیم نے الزام لگایا گیا ہے کہ کراچی میں کرکٹ اسٹیڈیم کی 18 ایکڑ اراضی کو فوج کی سینیئر قیادت کے لیے رہائشی اسکیم میں تبدیل کرنے کے لیے جنرل (ر) مشرف نے لیفٹیننٹ جنرل (ر) توقیر ضیا کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا جنہوں نے کھیلوں کی سرگرمیوں کے لیے مختص اراضی پر ہاؤسنگ اسکیم تعمیر کرنے کی منظوری دی۔
درخواست کنندہ نے یہ الزام بھی لگایا کہ ’پرویز مشرف نے استحقاق کے برخلاف پلاٹ الاٹ کر کے مسلح افواج کے اعلیٰ عہدوں میں کرپشن داخل کی'۔
توہین عدالت کی درخواست میں انعام رحیم نے کہا ہے کہ پرویز مشرف نے مبینہ طور پر مختلف کنٹونمنٹ میں موجود لاکھوں ایکڑ پر مبنی قیمتی اراضی ضائع کی اور اس سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کی۔
انہوں نے کہا کہ صرف کراچی کنٹونمنٹ میں ہی 2 ہزار 125 ایکڑ زمین ضائع کی گئی جس کی تفصیلات پہلے ہی نیب کو فراہم کی جاچکی ہیں۔
درخواست گزار کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اربوں روپے کی املاک کی ایک فہرست بھی نیب کو بھجوائی جاچکی ہے جن پر پرویز مشرف نے غیر قانونی طور پر قبضہ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سابق جنرل نے ان جائیدادوں کو کبھی ظاہر نہیں کیا کیوں کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور الیکشن کمیشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں کبھی اپنا انکم ٹیکس ریٹرنس فائل نہیں کیا اور نہ کوئی ٹیکس ادا کیا۔
انہوں پرویز مشرف کی کتاب'ان دی لائن آف فائر' میں موجود باب ’مین ہنٹ‘ کا حوالہ دیتے ہوئے نشاندہی کی کہ سابق آمر رہنما نے تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے متعدد افراد کو امریکا کے حوالے کیا اور دولت بنائی۔