گذشتہ ماہ جب وزیراعظم پاکستان نے بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے 'سمٹ فار ڈیموکریسی' میں شرکت کی دعوت کو مسترد کیا، تو پاکستان کے اینکر کامران خان نے سماجی میڈیا پر ایک ویڈیو کے ذریعے اسے 'غلط فیصلہ' قرار دیا اوراس کی مذمت کی۔ ایسا فیصلہ جو ان کے خیال میں چین کی ایما پر کیا گیا۔ یاد رہے کہ چین کو اس سمٹ میں یا تو مدعو نہیں کیا گیا، یا وہ اس حوالے سے ناخوش تھا۔ مذکورہ بالا صحافی نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس فیصلے کے ساتھ وزیراعظم نے پاکستان کو چین کی جھولی میں ڈال دیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بیجنگ کی جانب سے دیے جانے والے قرضوں نے اسلام آباد کو جکڑ لیا ہے۔ مزید برآں انہوں نے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک)، جس کے تحت توانائی اور انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری کے قرض زدہ شعبوں میں کھربوں ڈالر لگائے گئے، کے فوائد اور نقصانات کے اندازے کے لیے 'آڈٹ' کی ضرورت پر زور دیا۔
پاکستان میں آزادی صحافت اور سیاست اپنا مقام ایک 'گرے ایریا' میں رکھتے ہیں،اور اس حوالے سے 'ریڈ لائنز' کا تعین فوج کی جانب سے احتیاط سے کیا جاتا ہے۔ صرف ایک فون کال یا واٹس ایپ میسج کے ذریعے کرنلز کسی بھی 'جارح' ایڈیٹر' یا قانون ساز اسمبلی کے ممبر کو واپس 'لائن' پر لاسکتے ہیں۔
چنانچہ ملک ذرائع ابلاغ کے نہایت موثر کوارٹرز میں سے ایک کی طرف سے چین کے ساتھ تعلقات پر نظر ثانی کی اتنی واضح آوازآنا کوئی عام سی بات نہیں ہے۔ اس سے ملک کے خاکی ماسٹرز کی جانب سے 'آرڈر' نہیں تو 'حمایت' کا اعادہ ضرور ہوتا ہے۔ جیسا کہ ایک سابق امریکی سفارتکار کا کہنا ہے، طاقتور فوج یہی چاہتی ہے کہ وزیراعظم خان صدر بائیڈن کے سمٹ میں شریک ہوتے تاکہ سردمہری کا مظاہرہ کرنے والی سپرپاور سے تعلقات پھر سے تازہ کیے جاسکتے۔
جنرلز، جیسا کہ ظاہر ہے، جمہوریت سے یا اس ضمن میں امریکہ سے کچھ خاص انسیت نہیں رکھتے۔ البتہ ان میں حقیقت پسندی کا ایک گہرا ادراک موجود ہے اورغیرمتزلزل یقین کہ فوج قومی مفادات کے تحفظ کی ضامن ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کی زیادہ تر تاریخ میں فوج نے یا تو براہ راست حکومت کی ہے یا بالواسطہ طور پر سیاسی اثرورسوخ یقینی بنایا۔
فوجی لیڈرشپ کے علم میں ہونا چاہیئے کہ اندرون یا بیرون ملک سیاسی قوتوں میں وہ اپنے کوئی مستقل دوست نہیں رکھتے۔ وہ ہمیشہ 'حکمت عملی کے حساب سے حرکت' کے اصول پر کاربند رہتے ہیں تاکہ بدلتے حالات میں اندرون اور بیرون ملک قوتوں میں توازن رکھا جاسکے اور کسی ایک سرپرست، 'پراکسی' یا حمایتی پر مستقل انحصار سے بچا جاسکے۔
تاریخی طور پر پاکستان اور امریکہ کے درمیان کبھی سرد اور کبھی گرم تعلقات اس کی ایک نہایت عمدہ مثال ہیں۔ نائن الیون اور بعد ازاں امریکہ کا افغانستان پر حملہ اسلام آباد اور واشنگٹن کو قریب لے آیا۔ فوجی حکومت والے پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا کہ 'فرینڈلی' دکھائی دینے والی طالبان حکومت کو نکال باہر کرنے میں مدد دینے سمیت امریکہ کے دیگر مطالبات مان لے۔
لیکن 2000 کے وسط میں پاکستان نے طالبان کے لیے خفیہ حمایت بحال کردی تاکہ امریکہ کو مفاہمت اور خطے سے انخلا پر مجبور کیا جاسکے۔ گزشتہ سال پاکستان کو وہ حاصل ہوگیا جو وہ چاہتا تھا۔ لیکن دہ دہائیوں تک امریکہ کو افغانستان سے نکال باہر کرنے کی کوششوں کے بعد فوج بظاہر پھرسے خطے میں اس کی واپسی چاہتی ہے، اور یہ اس لیے کہ امریکہ - چین تنازعے میں شدت کے بعد فوج کو بیجنگ کے حوالے سے بند گلی میں پھنس جانے کا خوف ہے۔ لہذا مختلف شعبوں، بشمول انسداد دہشتگردی اور تجارت، میں تعاون کے ذریعے فوج ان دونوں بڑی طاقتوں کے ساتھ اپنے توازن کو برقرار رکھنا چاہتی ہے، تاکہ واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو بچایا جاسکے۔
اس کے برعکس وزیراعظم اپنے ذاتی احساسات کے تابع نظرآتے ہیں۔ وہ چین کے سیاسی نظام، غربت کے مقابل اس کی کامیابیوں اور کرپشن کے خلاف بے رحم اقدامات کو سراہتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں ایک امریکہ مخالف عنصر بھی پایا جاتا ہے، جس سے ان کا چین کے دباؤ کو قبول کرنا سمجھ آتا ہے۔
لیکن فوج بادی النظر میں ایسے بغض نہیں رکھتی۔ اس کی توجہ حال اور مستقبل پر مرکوز رہتی ہے، مستقبل جس کے حوالے سے وہ اندیشے رکھتی ہے۔ پاکستان کی معیشت سخت ناسازی کے عالم میں ہے، جو سماجی و سیاسی بے چینی کے ساتھ ساتھ فوجی اخراجات میں کمی کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
چین کا 'ہائی رسک' ممالک کو قرضہ دینے سے بڑھتا ہوا احتراز بتاتا ہے کہ یہ پتے اب خشک ہورہے ہیں اور پاکستان کی معاشی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس صورتحال میں فوجی کمانڈ مجموعی طور پر مسٹر خان کے ' ہائپرنیشنل ازم' کو ایک غیرموثر جنگ کے طور پر دیکھتی ہے، اور فوجی لیڈر ان کو 'ایسیٹ' کے بجائے 'لائبلیٹی' کے طور پر دیکھنے لگے ہیں۔ اس زاویے سے ہمیں واشنگٹن کی طرف جھکاؤکی وجہ سمجھ آتی ہے، کہ جس میں ڈیموکریسی سمیٹ کے حوالے سے پیغامات کے تبادلے سمیت غیر معمولی طور پر ایک امریکی سفارتکار کو چین کے اثرورسوخ والے حساس گوادر پورٹ تک رسائی دینا شامل ہے۔
لیکن امریکہ کو دوبارہ سے محور بنانے کی کوشش کے زیادہ دور تک جانے کے امکانات کم ہیں۔ واشنگٹن کے حوالے سے نیک نیتی خصوصا پاکستانی انٹیلی جنس کی طالبان کے حق میں سپورٹ کے بعد اب ماند پڑچکی ہے۔ اور اسلام آباد امریکہ سے دوری کا اکیلا ہی 'قصوروار' نہیں۔ واشنگٹن نے بھارت کو، جو ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرنے کا خواہاں ہے، کھلے دل سے گلے لگالیا ہے، تب بھی جبکہ نئی دہلی کی پیشقدمی حاکمانہ ہندو نیشنل ازم کی جانب جاری ہے۔ وقتاً فوقتاً واشنگٹن نے انسانی حقوق اورجوہری پھیلاؤ کے حوالے سے بھارت کے ساتھ استثنٰی کا رویہ رکھ کر نئی دہلی کی حوصلہ افزائی کی اور اسلام آباد کو خطرے میں ڈال دیا۔
اگرچہ حالیہ برسوں میں پاکستان نے اپنے تعلقات روس اور ترکی سے تعلقات گہرے کیے ہیں، لیکن امریکی کے ہم پلہ متبادل کے طور پر چین ہی درست انتخاب کے طور پر سامنے آتا ہے۔
2011 میں جب واشنگٹن سے تعلقات سب سے نچلی سطح پر تھے تو پاکستان نے فوجی سازوسامان جیسے کہ ڈرون اور جدید طیارے، جو امریکہ سے ملنا ممکن نہ تھے، کے لیے بیجنگ کا رخ کیا۔ چین اور پاکستان نے کم خرچ والے اس جنگی طیارے کی مشترکہ تیاری کا کام تیز کیا جو آج پاکستان ایئرفورس کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اور پاکستان چینی سیٹلائٹ کی سمت شناسی کی سروس کے فوجی ورژن 'بیڈو' تک رسائی رکھنے والا واحد ملک بن گیا۔
اگرچہ پاکستان کے جنرل ایک نئی سرد جنگ میں چین کے ساتھ 'ٹریپ' ہوجانے سے بچنا چاہتے ہیں، وہ بیجنگ کے نئے قوت بازو سے مستفید بھی ہوئے ہیں، جیسے کہ گزشتہ برس بھارت کو پاکستان کے ساتھ فرنٹ لائن پر موجود افواج ہٹا کر چین کی سرحد کی جانب لیجانا پڑیں۔
چین اور پاکستان کے ساتھ دوطرفہ جنگ کے خوف کی وجہ سے فی الوقت تو نئی دہلی نے اسلام آباد سے اپنے تیور درست رکھے ہوئے ہیں، لیکن اس سے بھارت اور امریکہ کی رفاقت بھی بڑھ جاتی ہے، چاہے متضاد طور پر پاکستان کی چین سے پارٹنرشپ خاصی سودمند ثابت ہورہی ہو۔
چین کا سامنا کرنے کے لیے بھارت امریکیوں کے حوالے سے تحفظات پر قابو پاتے ہوئے 'اسٹریٹیجک خودمختاری' پر نرمی اوردفاعی تعاون میں اضافے کا متمنی ہے۔ اس سے پاکستان کا چین پر انحصار بڑھ جاتا ہے، جو کو اسلام آباد کو اسلحہ فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ اور مشترکہ 'کریڈیٹر' ہے۔ اور یہی صورتحال پاکستانی فوج کی اسٹریجک اعتبار سے بند گلی میں قید ہوجانے کی پریشانی کو دوچند کردیتی ہے۔
دریں اثنا پاکستان کو ایک مشکل راستے سے یہ سمجھ آچکا ہے کہ تجارت اور قرضے کے حصول کے معانی میں اس کی چین سے 'خاص' دوستی کچھ اتنی بھی 'خاص' نہیں۔
2020 میں اسلام آباد نے بجلی کے ان مہنگے معاہدوں پر دوبارہ بات چیت شروع کرنے کی کوشش کی جو اس نے جلدبازی میں چینی کمپیز کے ساتھ طے کرلیے تھے۔ بیجنگ نے ایسا کرنے سے ناصرف یہ کہ انکار کیا، بلکہ اصرار کیا کہ اسلام آباد چینی پاور پروڈیوسرز کو واجب الادا 1.4 ارب ڈالر بھی واپس کرے۔
پاکستان نے اپنے تقریباً تمام ہی انڈے ایک ہی باسکٹ میں ڈال دیے اور اب چین کے ساتھ 'حلیف' ہونے کی حدود سمجھنے کے مرحلے میں ہے۔ اس کی یہ مشکل دوسرے چھوٹے ممالک کے لیے امریکہ - چین دشمنی کے نئے دور میں اپروچ کے حوالے سے اسباق رکھتی ہے، اور وہ یہ کہ چین کو امریکہ کے متبادل کے طور پر اندھادھند نہ لیا جائے۔ کامرس اور ٹریڈ کے معاملات میں چین کا طرزعمل دوستوں اور دشمنوں دونوں کے لیے ایک تاجر کا سا ہے۔
چنانچہ اگرچہ پاکستانی فوج بظاہر اپنے آپ کو فاصلے پر کرتی نظر آتی ہے، شاید اب تک پہلے ہی بہت دیر ہوچکی ہے۔
عارف علی رفیق کا یہ مضمون معروف انگریزی اخبار نیو یارک ٹائمز میں شائع ہوا جسے نیا دور اردو کے قارئین کے لئے ترجمہ کیا گیا ہے۔