تاہم بائیڈن انتظامیہ کے اس فیصلے کو اپوزیشن اراکین غلط قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے اس پر سخت تنقید کرتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے امریکا آنے کے خواہشمندوں کی تعداد میں ریکارڈ کمی دیکھنے میں آسکتی ہے۔
خیال رہے کہ امریکا جانے کے خواہشمندوں کو ویزوں کے حصول میں طویل عرصہ انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے بائیڈن انتظامیہ کے اس فیصلے سے ناخوش ناقدین فکرمند ہیں کہ اگر ویزوں کے جلد از جلد اجرا نہیں کیا جاتا تو اس سے امریکی سیاحت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ اس صورت میں فیسوں میں اضافہ طالبعلموں اور سیاحوں کی تعداد میں مزید کمی لائے گا۔
محکمہ خارجہ حکام کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نئی ویزا فیسیں ستمبر 2022ء تک لاگو کر دی جائیں گی۔
امریکی محکمہ خارجہ کے اعدادوشمارسے ظاہر ہوتا ہے کہ زیادہ تر ویزا درخواستیں سیاحت، تجارت اور تعلیم کے لئے دی جاتی ہیں۔ ویزے کی درخواستوں کے بعد انتظار کی مدت 6 ماہ سے ایک سال کی جا رہی ہے۔
سیاحت کے ویزا کی درخواست بی ون اینڈ بی ٹو اور سٹوڈنٹ ویزہ ایف، ایم، جے کی فیسیں 160 ڈالر سے بڑھا کر 245 ڈالر کر دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ روزگار پر مبنی ویزا ایچ، ایل، او، پی، کیو اور آر کی فیس 190 سے بڑھا کر 310 کر دی گئی ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا فیسوں میں اضافے کے بعد امریکی ویزے فوری جاری کئے جائیں گے۔ اگر بائیڈن انتظامیہ فیسوں میں اضافہ کرتی ہے لیکن ویزا سروس میں کوئی بہتری نہیں آتی تو اس کے نتیجے میں امریکا آنے والے مسافروں میں کمی واقع ہوگی۔