عمران خان اور نواز شریف دونوں اپنی زندگی کے آخری دور اقتدار کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ امکان ہے کہ اس کے بعد دونوں وہاں پہنچ چکے ہوں گے جہاں اس وقت جنرل مشرف ہیں یعنی 2028 تک جسمانی توانائیاں کھو چکے ہوں گے۔ اسٹیبلشمنٹ بھی بہت سالوں سے طاقت پر قابض ہے اور اس نے ساری طاقت اپنے پاس جمع کر رکھی ہے۔ پہلی مرتبہ اسے ایک ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جہاں معیشت کی مسلسل بگڑتی حالت کے پیش نظر اب وہ محض اقتدار کے مزے لوٹنے کے بجائے پورے ملک کے لیے سوچنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے اب احساس ہو گیا ہے کہ سکڑتی ہوئی معیشت کے باعث اسے دنیا کی طاقتور ریاستوں کے تابع رہ کر ان کے مطالبات کو ماننا ہوگا۔ نتیجے کے طور پر ملک کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی اپنی طاقت بھی سکڑ کر رہ جائے گی۔
ایک جانب تو اسٹیبلشمنٹ اس وقت تحریک طالبان، تحریک لبیک، افغان طالبان، داعش، چین اور امریکہ کے بڑھتے اثرورسوخ اور امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے بعد کے حالات سے معاملہ کرنے والے دوستوں اور دشمنوں کے ملے جلے گروہ میں گھری کھڑی ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا کی مقبولیت کے باعث جو بطور آلہ چوکیدار سے لے کر وزیر اعظم تک ہر شخص کے استعمال میں ہے، اسٹیبلشمنٹ کو ان پریشر گروپس سے بھی نمٹنا ہوگا جو ان کی اپنی پالیسیوں کے غیر ارادی نتائج کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ سب سے زیادہ قابل ذکر غیر ارادی نتائج پشتون تحفظ موومنٹ اور آرمی پبلک سکول واقعے میں زندہ بچ جانے والے دہشت گرد ہیں۔ ان چیلنجز میں ملک میں بڑھتی ہوئی لاقانونیت کے باعث سول سوسائٹی میں پیدا ہونے والے غم و غصے میں اضافہ بھی شامل ہے۔ علی وزیر کو جیل میں ڈالے رکھنا آسان ہے لیکن وہ لوگ جو مظلوم علی وزیر کے ساتھ خود کو جوڑ کے شناخت کرتے ہیں، ان میں بڑھتی ہوئی ناراضگی جیسے غیر متوقع نتائج بھی مستقبل میں برآمد ہو سکتے ہیں۔ تحریک لبیک کے کارکنوں کی جانب سے اس وقت سامنے آنے والی شدید مزاحمت جب ان کا لیڈر جیل میں تھا اور حکومت کی جانب سے ایک کے بعد ایک معاہدے کی صورت میں ان کے سامنے ہتھیار ڈالتے جانا اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔
ہر سٹیک ہولڈر کے پاس اپنے مخصوص کارڈ ہیں اور اگرچہ بہت مؤثر انداز میں یہ نہیں کھیلے جا رہے تاہم ہر کوئی ان کو بھرپور طریقے سے کھیل رہا ہے۔ اس لیے ان میں سے کوئی بھی سیاست کے میدان کو بغیر لڑائی کیے چھوڑنے کو تیار نہیں ہوگا۔ ابھی حال ہی میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بہت سارے بلوں کی منظوری دے کر اور الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کے لیے راہ ہموار کر کے پی ٹی آئی نے اپنا ایک کارڈ دلکش انداز میں کھیلا ہے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں اپوزیشن بہت کمزور دکھائی دے رہی ہے۔ اگرچہ ای وی ایم مشینوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو انتخابی عمل میں شامل کرنے کو پی ٹی آئی 2023 کے انتخابات میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھ رہی ہے لیکن اس تبدیلی سے کسی اور کو زیادہ فائدہ پہنچنے کا احتمال ہے اور اس احتمال کا اشارہ آصف علی زرداری اپنی ایک تقریر میں کر چکے ہیں۔ عمران خان کو بھی اس امکان کی خبر ہے لیکن جیسے کہ وہ خود کہتے ہیں کہ وہ ایک کھلاڑی ہیں اور ہر طرح کے نتائج کے لیے تیار رہتے ہیں۔ یہی وہ چیز ہے جو عمران خان کو آصف زرداری اور نواز شریف دونوں سے الگ کرتی ہے کہ یہ سب کچھ عمران خان کے لیے محض ایک کھیل ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ انہیں کیا چاہئیے اور اسے حاصل کرنے کے ہر جائز ناجائز طریقے کا بھی انہیں علم ہے۔ وہ اسے حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں چاہے اس کے نتائج کچھ بھی ہوں۔ ان کی ذات کا یہی پہلو اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کو ہر دم چوکنا رہنے پہ مجبور کرتا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت شروع کر کے نواز شریف اپنے کچھ پتے کھیل چکے ہیں مگر آخری کارڈ ابھی ان کے ہاتھ میں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ عمران خان اپنے تمام تجربات میں ناکام ہو چکے ہیں اور ان تمام تر ناکامیوں کے بعد ملک کو دوبارہ معمول پر لانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان کے پاس قیادت کا بہت محدود تجربہ ہے اور فی الوقت ان کا مکمل انحصار اسٹیبلشمنٹ کو بلیک میل کرنے پر ہے۔ یہاں تک کہ ڈی جی آئی ایس آئی جیسے اہم عہدے کے نوٹیفکیشن میں تاخیر کرکے عمران خان اس حد تک پہنچ چکے ہیں کہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کو ناراض کر چھوڑا ہے۔
اس وقت پاکستان مسلم لیگ ن کرکٹ میچ کی ایک ایسی ٹیم کی طرح محض وقت پورا کر رہی ہے جسے تقریباً یقین ہو چکا ہوتا ہے کہ اس کے مخالف کے پاس ہدف حاصل کرنے کے لیے بہت کم گیندیں باقی رہ گئی ہیں۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ ایمان دار دشمن جعلی دوست سے بہتر ہوتا ہے۔ نواز شریف اس پہلو سے بھی واقف ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے اقتدار کو پھر سے پی ٹی آئی اور پی پی پی کے حوالے کرنے پہ راضی ہونے کے امکان بہت کم ہیں کیونکہ یہ دونوں جماعتیں اپنے حالیہ ادوار میں مسلم لیگ ن کے مقابلے میں ملک چلانے میں بری طرح ناکام رہی ہیں جس سے آخر کار اسٹیبلشمنٹ کو خود بھی اپنے انتخاب کی وجہ سے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
اسٹیبلشمنٹ نے بھی ابھی پوری طرح اپنے پتے کھیلنے ہیں کیونکہ اس وقت وہ حکومت اور اپوزیشن دونوں سے رابطے میں ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے خود پر کھلی تنقید کے باوجود اسٹیبلشمنٹ فی الوقت نہ اپوزیشن کے لئے بدترین دشمن کا کردار ادا کر رہی ہے اور نہ ہی حکومت کی بہت اچھی دوست نظر آ رہی ہے۔ اپوزیشن کے ساتھ دشمنی پالتے رہنے کی پالیسی اسے اندھیری گلی میں لے جا سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بہت پھونک پھونک کر قدم بڑھا رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی سراسر ناکامی کی وجہ سے ملک چلانے میں اسٹیبلشمنٹ کے گہرے کردار کا کھلے عام سامنے آ جانا اور اس حقیقت کا انکشاف ہو جانا کہ حکمران جماعتوں کا مجموعی طور پر ملک کے نظم و نسق چلانے میں کردار بہت کم ہے، اسٹیبلشمنٹ کے حالیہ محتاط رویے کی وجوہات ہیں۔ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کی طرح پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ بھی نہیں چاہتی کہ پاکستان کے عوام یہ سوچیں کہ ملک میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار وہی ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس سب کے ذمہ دار وہی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جس سر پہ تاج دھرا ہوتا ہے، سارا بوجھ اسی کو اٹھانا پڑتا ہے اور دن بہ دن یہ بوجھ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔
اس سارے کھیل کا ممکنہ نتیجہ یا تو پاکستان کی تباہی کی صورت میں نکلے گا یا پھر اس کا نتیجہ شان دار ہو گا کہ اختیارات کی نئے سرے سے ترتیب اور تقسیم سے ترقی پسند پاکستان بنانے کی راہ ہموار ہو گی۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے توقع باندھی جائے کہ وہ اپنی ساری طاقت چھوڑ کر سب کچھ سیاست دانوں کے حوالے کر دے گی مگر ہمیں طاقت کی ازسرنو تقسیم اور تفویض کی اشد ضرورت ہے۔ ایک دم سے تمام اختیارات سیاست دانوں کے حوالے کر دینے کے بھی پاکستان پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ ہمارے وزرائے اعظم جیسنڈا آرڈن اور جسٹن ٹروڈو تو ہیں نہیں بلکہ وہ بھی اپنے آپ میں ایک اسٹیبلشمنٹ ہیں۔ اسی وجہ سے بہت مشکل لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ مستقل طور پر اپنی طاقت کم کر دے گی۔
ہم عوام کو ایسا پاکستان چاہئیے جو رہنے کے قابل ہو۔ بصورت دیگر ہم ایک کے بعد ایک تباہی کا شکار ہوتے رہیں گے جس میں معیشت کی زبوں حالی، خودکش دھماکے، قومی کرکٹ ٹیم کی تباہی، بلوچستان اور مجموعی طور پر پاکستان میں اقلیتوں کی نسل کشی جیسے واقعات کا جاری رہنا شامل ہیں۔ تصور کریں کہ روزمرہ کے واقعات کی صورت میں ہم دنیا کو اپنے بارے میں کس طرح کا تاثر دے رہے ہیں۔ اس سب کے بعد پاکستان کو پرامن ملک دکھانے کی تمام تر کوششیں رائیگاں چلی جاتی ہیں تو حیرت کس بات کی ہے۔ ایسی صورت میں کون سا غیر ملکی پاکستان آنے کا خطرہ مول لے گا جب وہ ایک ہجوم کو پولیس اہلکاروں کو جان سے مارتے ہوئے دیکھتا ہے اور یہ بھی دیکھتا ہے کہ ریاست اس ہجوم کے سامنے ہتھیار ڈال رہی ہے اور ایک ثانیے میں تمام مجرموں کو معاف کر دیتی ہے؟ اور یہ سب کچھ ہو بھی حضورﷺ کے نام پر رہا ہے! اس سے بڑی توہین رسالت اور کیا ہو سکتی ہے؟
2023 میں پیش آنے والے فیصلہ کن معرکے سے قبل اسٹیبلشمنٹ کو اپنی حیثیت پر نظرثانی کرنی چاہئیے اور اختیارات کو اس طرح سے دوبارہ ترتیب دینا چاہئیے کہ انتظامیہ میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر بہترین صلاحیت رکھنے والے لوگ شامل ہو سکیں۔ ملک میں ایک ایسی صورت حال پیدا ہونی چاہئیے جہاں جج کسی سیاسی جماعت کی جانب سے جسمانی تشدد کے خوف سے بالاتر ہو کر اور بااثر اداروں کے دباؤ میں آئے بغیر آزادانہ طور پر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہوں، جہاں پولیس مجرموں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے لئے بااختیار ہو نہ کہ مجرموں کے ہاتھوں سڑکوں پر ہلاک ہو جانے کے خوف سے دوچار رہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے مفاد اور سہولت کو مدنظر رکھے بغیر اور کسی سے دوستی نبھائے بغیر سیاست دانوں کے جائز اختیارات ان کے حوالے کر دینے چاہئیں۔ لب لباب یہ ہے کہ ایک ایسا پاکستان تشکیل پا جائے جو رہنے کے قابل ہو۔
اگر اسٹیبلشمنٹ مسلسل پاکستان کے اجتماعی تشخص کو نظر انداز کرتے ہوئے دنیا کے سامنے محض خود کو بہترین سکیورٹی ایجنسی کے طور پر پروموٹ کرتی رہی تو پھر پاکستان کا اللہ ہی حافظ ہے۔ ملک میں تحریک طالبان پاکستان، تحریک لبیک، پشتون تحفظ موومنٹ اور تحریک انصاف جیسے گروہ بدستور ابھرتے رہیں گے اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس اپنی عملداری قائم کرنے کے لیے نہ ہی عوام بچیں گے اور نہ کچھ اور۔
بیرسٹر اویس بابر کا یہ تجزیہ The Friday Times میں شائع ہوا تھا جسے نیا دور اردو قارئین کے لئے ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔