چیف جسٹس عامر فاروق نے ساجد محمود کی جانب سے دائر درخواست کی سماعت کی۔
درخواست گزار نے استدعا کر رکھی ہے کہ عدالت، کاغذاتِ نامزدگی میں جھوٹ بولنے پر عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت بطور رکنِ اسمبلی نااہل قرار دے۔
سماعت کے دوران عمران خان نے عمران خان نے تحریری جواب اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کراتے ہوئے اپنے خلاف کیس کو خارج کرنے کی استدعا کردی۔
عمران خان نےتحریری جواب میں کہا کہ بطور رکن اسمبلی آفس چھوڑ چکا ہوں اور موجودہ اسمبلی میں جانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا، پبلک آفس ہولڈر نہیں رہا اس لیے نااہلی درخواست قابل سماعت نہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ اس درخواست کو نہیں سن سکتی۔
عمران خان نے مؤقف اپنایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے 4 جج اس سے پہلے معاملے کوسننے سے معذرت کر چکے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ ماضی میں عمران خان کی خلاف اس نوعیت کا کیس سننے سے انکار کر چکے ہیں اور یہ مسلمہ اصول ہے کہ ایک بار جج ایک کیس سننے سے انکار کردیں تو اسی جج کا دوبارہ وہی کیس سننا غیر مناسب ہے۔ عبدالوہاب بلوچ نکی جانب سےاسی معاملے پر پہلے درخواست دائرکی گئی تھی۔
تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ آئینی دائرہ اختیار میں عمران خان کے کسی بیان حلفی کا جائزہ نہیں لے سکتی۔ بیان حلفی کے جائزے کے لیے مجاز فورم پر گواہ اور شواہد پیش کرنے کے ساتھ گواہوں پرجرح کی ضرورت ہے۔
عمران خان نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں ٹیریان کے والد ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کی۔ اور اس سوال کو جواب دینے سے گریز کیا ہے۔