پیر کو پشاور پولیس لائنز میں ہونے والے خودکش دھماکے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے اور دھماکے میں ایک مسجد کو نشانہ بنایا گیا تھا جہاں پولیس اہلکار عبادت کرتے ہیں۔ اس حملے کی سفاکانہ شدت نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دنوں کی یاد تازہ کر دی ہے جو گذشتہ دہائی کے دوران فوج، نیم فوجی دستوں اور سب سے بڑھ کر خیبر پختونخوا پولیس کے جوانوں نے بہادری سے لڑی تھی۔ بدقسمتی سے دہشت گردوں کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات اور فوجی کارروائیوں کے علاوہ عسکریت پسندی اور انتہا پسندی پر مبنی سوچ کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی۔ درحقیقت نیشنل ایکشن پلان، نیشنل انٹرنل سکیورٹی پالیسی اور حال ہی میں عمران-باجوہ ہائبرڈ حکومت کے دوران تشکیل دی گئی سکیورٹی پالیسی پاکستانی بیوروکریسی کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر رہ گئی ہیں۔ سکیورٹی پالیسی سے متعلق ان دستاویزات کا جمع حاصل صفر ہے کیونکہ بنیادی سٹیک ہولڈرز کبھی ان پالیسیوں پر عمل درآمد کے بارے میں سنجیدہ ہی نہیں ہوئے۔
پاکستانی عوام کے ساتھ اس سے بڑھ کر ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ 15 اگست 2021 کو جب طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو پاکستان میں جشن منایا گیا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے علی الاعلان افغان عوام کو مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ طالبان جو تشدد پسند اور رجعت پسند سوچ کے مالک ہیں، نے 'غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی ہیں'۔ مرے پہ سو دُرے کے مصداق، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) فیض حمید کو کابل کے سرینا ہوٹل میں جشن کی چائے پیتے اور یہ اعلان کرتے سنا گیا؛ 'فکر کی کوئی بات نہیں، سب ٹھیک ہو جائے گا'، جو آج غلط ثابت ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کی 'سٹریٹجک ڈیپتھ' کی ناقص اور جعلی پالیسی مکمل طور پر الٹی پڑ گئی ہے کیونکہ بہت عزیز اور حفاظت سے رکھے ہوئے 'سٹریٹجک اثاثے' الٹا ہماری ذمہ داری بن چکے ہیں۔ 2023 میں عسکریت پسندوں کے خلاف کوئی بھی آپریشن ڈیورنڈ لائن کو عبور کیے بغیر اور نتیجے کے طور پر بین الریاستی تنازع میں پڑے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتا۔ انتخاب کرنے میں پاکستان کو ایسی سنگین صورت حال کا پہلے کبھی سامنے نہیں کرنا پڑا۔ اگست 2021 میں طالبان کی واپسی پر خوشیاں منانے سے بمشکل ایک ماہ قبل پاکستان کی اعلیٰ فوجی قیادت پارلیمنٹ کو بریفنگ دیتے ہوئے اعتراف کر چکی تھی کہ 'اچھے طالبان، برے طالبان' والی بات محض افسانہ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے اعلانات کے باوجود تین عشروں پر محیط افغان پالیسی کو ختم کرنے کے لئے اقدامات نہیں اٹھائے جا سکے۔
پاکستانی حکام اور عام لوگوں خاص طور پر نوجوانوں کی ایک پوری نسل کو طالبان کی حمایت کے لئے برین واش کیا گیا کیونکہ پاکستان کے پاس اپنے مغربی پڑوسی افغانستان پر اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے اور بھارت کے 'شرپسند' عزائم کا مقابلہ کرنے کے لئے طالبان کی پشت پناہی واحد آپشن تھا۔ اس کے برعکس تمام شواہد اور غیر روایتی آرا اور تجاویز کو طنز اور شک کی نگاہ سے دیکھا گیا جس کے باعث پاکستان خود کو اس بند گلی میں لے آیا۔
حالات کی فطری ترتیب موجودہ پالیسی میں تبدیلی کا تقاضا کرتی ہے اور غیر مستحکم سٹیس کو کو دیکھتے ہوئے نظر آ رہا ہے کہ یہ تبدیلی ناگزیر ہو چکی ہے۔ تاہم اس وقت ملک گہری تقسیم کا شکار ہے اور عمران خان کی تفرقہ انگیز سیاست کی وجہ سے طالبان کے بارے میں کسی مختلف پالیسی پر اتفاق رائے حاصل کرنے کے امکانات بہت کم نظر آ رہے ہیں۔ عمران خان حکمران اتحاد اور فوجی اسٹیبلشمنٹ دونوں سے بدلہ لینا چاہتے ہیں کیونکہ وہ اپریل 2022 میں اپنی حکومت سے بے دخلی کے ذمے دار انہی دونوں کو گردانتے ہیں۔ عوام کی بھرپور حمایت نے بھی انہیں مضبوط بنا رکھا ہے اور سوشل میڈیا کا ہتھیار بھی ان کے ہاتھوں میں ہے جس نے اس ملک کے حقیقی طاقتور لوگوں کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ عمران خان کے قبل از وقت انتخابات کے مطالبے کو پورا کیے بغیر اسٹیبلشمنٹ کے لئے عمران خان کو واپس ایک صفحے پر لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ اصل مشکل تو یہی ہے کہ قبل از وقت انتخابات حکمران اتحاد یا اسٹیبلشمنٹ دونوں کے لئے قابلِ قبول نہیں ہیں خاص طور پر معیشت کو پھر سے زندہ کرنے کے لئے مطلوبہ وینٹی لیٹر کو چلانے سے پہلے دونوں فوری انتخابات کے حق میں نظر نہیں آتے۔ مزید براں مبینہ طور پر پاکستان کے قریبی اتحادی ممالک بھی عمران خان کے ساتھ کام کرنے سے گریزاں ہیں اور امکان ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بھی اس حقیقت پر گہری تشویش میں مبتلا ہوگی۔ لہٰذا آنے والے مہینوں میں معاشرتی تقسیم اور غیر یقینی صورت حال میں اضافہ نظر آئے گا کیونکہ اس گھن چکر سے نکلنے کا کوئی آسان راستہ نظر نہیں آ رہا۔
پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ کی تقرری جسے عمران خان اپنا شدید مخالف سمجھتے ہیں، پی ٹی آئی کے ترجمان فواد چودھری کی گرفتاری اور عمران خان کے لئے بڑھتے ہوئے قانونی چیلنجز سے ایسا لگتا ہے کہ عمران خان پر قابو پانے کا عدالتی راستہ اختیار کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ الیکشن کمیشن عمران خان کو پہلے ہی نااہل قرار دے چکا ہے اور مزید ناموافق فیصلے سامنے آنے کی توقع ہے، جس کے نتیجے میں اکتوبر 2011 میں شروع کیے گئے اس عمران پروجیکٹ کو باضابطہ طور پر ختم کرنے کی راہ ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے جس کا آغاز 2011 میں اس وقت کے آئی ایس آئی چیف کی جانب سے عمران خان کو مین سٹریم میں مسیحا بنا کر پیش کرنے سے ہوا تھا۔ تاہم اس پروجیکٹ کا خاتمہ اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ عمران خان کی حمایت میں بہت اضافہ ہو چکا ہے اور انہوں نے متوسط طبقے جس سے تعلق رکھنے والے افراد کی اکثریت قومی اداروں، میڈیا اور ملکی انٹیلی جنشیا میں موجود ہے، ان کی سوچ کو اپنے قابو میں کر لیا ہے۔ آج عمران خان حقیقی طور پر مقبول ہیں اور محنت کش اور متوسط طبقے کو درپیش معاشی مشکلات عمران خان کے نصب العین کو تقویت بخش رہی ہیں۔
پاکستان کو کبھی بھی سلامتی کے مسائل، اقتصادی پالیسیوں اور ملکی قیادت پر قومی اتفاق رائے کی ایسی ضرورت نہیں پڑی جو ملک کو موجودہ بحرانوں سے نکالنے کے لئے آج چاہیے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے بڑھتی ہوئی مہنگائی پر عوام کے غم و غصے کا سامنا کرنے والی ایک کمزور اتحادی حکومت کے ہوتے ہوئے اور مسلسل انتشار پھیلانے پر کمربستہ عمران خان کی موجودگی میں پیدا ہونے والا خلا اور بھی شدت اختیار کر چکا ہے۔ اس لئے سیاسی طبقے کے لئے ناگزیر ہو چکا ہے کہ وہ اس چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے اٹھ کھڑا ہو۔ تاہم سیاسی طبقہ تب تک ایسا نہیں کر سکتا جب تک ملکی فوج پیچھے نہ ہٹ جائے اور ملک کو آگے لے جانے کے لئے سول قیادت کے لئے جگہ نہ خالی کر دے۔ پاکستان کو ایک نئے میثاق جمہوریت کی اشد ضرورت ہے۔ جلد یا بدیر عمران خان کو بھی اپنے بے لچک انداز پر نظر ثانی کرنی ہوگی اور ان کو وہی کرنا ہوگا جو عام طور پر سیاست دان کرتے ہیں؛ مذاکرات کریں، سودے بازی کریں اور آگے بڑھیں۔
عام انتخابات کا التوا اور توسیعی مدت کے لئے ایک ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کا قیام ان دنوں زیرغور ہے۔ یہ آپشن حالیہ بحرانوں کی شدت میں مزید اضافہ کر دے گا اور اس کے نتیجے میں ملکی نظام ایسے شدید ہچکولے کھانے لگے گا جنہیں سہارنے کی ہمت نہ تو ملک رکھتا ہے اور نہ ہی اس کے عوام۔
رضا رومی نے یہ اداریہ The Friday Times کے لیے لکھا ہے جسے نیا دور اردو قارئین کے لیے ترجمہ کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔