تعارف
اگر ہم پاکستان میں فرقہ واریت کے بارے میں شائع ہونے والے مقالوں اور کتابوں پر یقین کریں تو یہ 1960 کی دہائی تھی جب سعودیوں نے پاکستان میں شیعہ مخالف مہم کا ذمہ اٹھایا۔ اس کام کیلئے انھیں صفر سے بلکہ آغاز نہیں کرنا پڑا انگریز دور سے ہی فرقہ واریت کی آگ دہک رہی تھی جسے انہوں نے ہوا دے کر بھڑکا دیا (Jones, 2011)۔ 1947 میں تقسیمؚ ہند کے نتیجے میں ہندوستانی جمہوریہ کے اطراف میں مسلمانوں کیلئے دو حصوں پر مشتمل پاکستان نامی وطن قائم ہوا۔ مغربی پاکستان میں شیعہ آبادی پندرہ سے بیس فیصد کا قابلِ توجہ تناسب رکھتی تھی جبکہ مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) میں نسبتاً کم، ایک فیصد تک تھی۔ ابتدائی سالوں میں مغربی پاکستان میں اپنی عددی اہمیت سے آگاہ شیعہ تنظیمیں پورے اعتماد کے ساتھ اپنے مطالبات، جیسا کہ شیعہ بچوں کیلئے الگ اسلامیات یا شیعہ اوقاف کے الگ انتظام کا مطالبہ، پیش کیا کرتی تھیں۔ انہوں نے کئی حکومتوں کو ان مطالبات پر ناکافی اقدامات اٹھانے پر تنقید کا ہدف بھی بنایا، جن میں بہت سے فوجی آمر تھے۔ اگرچہ شیعوں کے خلاف امتیازی زبان استعمال ہوتی تھی لیکن 1980 کی دہائی سے پہلے تک شیعوں کے خلاف بہت کم پر تشدد اور نفرت انگیز سرگرمیاں دیکھنے کو ملیں (Rieck, 2015: 55–195)۔ البتہ 1960 کی دہائی اپنے ساتھ اہم بین الاقوامی اور دیر پا تبدیلی لے کرآئی۔ 1968 میں سعودی عرب کی مدینہ یونیورسٹی سے پہلے پاکستانی طالب علم، احسان الہٰی ظہیر، فارغ التحصیل ہوئے۔ یہ ادارہ 1962 میں دنیا بھر میں سلفی اسلام کی تبلیغ کرنے کے سعودی اوزار کے طور پر قائم کیا گیا تھا (Farquhar, 2016)۔ احسان الہٰی ظہیر نے سعودی شاہی خاندان، وہاں کے علماء اور ناشران سے قریبی تعلقات قائم کئے تھے جو ان کے پاکستان آنے کے بعد بھی قائم رہے۔ اگلے عشروں میں انہوں نے وہ سب کیا جو وہاں سے سیکھا تھا، یعنی باطل اسلامی فرقوں کا رد کرنا۔ وہ بڑے مصروف رہے اور چودہ کے قریب فرقہ وارانہ کتابیں لکھیں، جو عربی زبان میں لکھی گئیں اور جلد ہی ان کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوا ۔ 1970 کے بعد ان کا اولین نشانہ شیعہ تھے۔
اس فعالیت کے ہوتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ جدید دور کے جنوبی ایشیا میں شیعہ سنی تعلقات کے بگاڑ اور فرقہ وارانہ تشدد کو ہوا دینے میں انفرادی سطح پر احسان الہٰی ظہیر کا کردار سب سے نمایاں ہے (Haykel, 2011: 191)۔ پاکستان کے شیعہ سنی تصادم پر کئے گئے تحقیقی مطالعات میں خلیجِ فارس سے آنے والے فکری اثرات کو کراچی سے پشاور تک فرقہ واریت پھیلانے کے بنیادی عامل کے طور پر پیش کیا گیا ہے (Ahmed, 2011)۔ لیکن سعودی عرب اور اس کے نیٹ ورک پر توجہ مرکوز کر لینا، اگرچہ مقبول عام ہے، پاکستانی فرقہ واریت کی مقامی اور علاقائی جہتوں سے غافل کر دیتا ہے۔ اس کے بجائے اس مقالے میں پاکستان کے تصورِ ریاست کی تشریحات کا متنازعہ ہونا موضوع ِبحث ہے، جو پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے میں اہل حدیث مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے سلفی گروہوں کے سعودی عرب سے وابستہ مالی مفادات سے کہیں زیادہ حصہ دار ہے۔ پاکستان کے تصور اور مفہوم پر 1940 کے عشرے میں بڑی گرم بحث ہوئی تھی۔ آزادی کے بعد اس ملک نے اسلام کے ساتھ اپنے تعلق کو معلق پایا اور تجدید پسند مذہبی رہنما، روایتی مذہبی رہنما اور سیکولر رہنما سبھی اپنے اپنے تصورات کے مطابق ملک کو ڈھالنے کی تگ و دو کرنے لگے (Zaman, 2018: 54 – 94)۔ اس سیاسی بحث کی اہمیت کے تناظر میں 1979 کے ایرانی انقلاب نے دیوبندی علماء کے اعصاب پر شدید دباؤ ڈالا، جو پاکستان کی عددی اعتبار سے بڑی سنی مذہبیت کی قیادت کرتے تھے۔ اچانک انہیں اسلامی سیاست کے ایسے بندوبست کا سامنا ہوا جو معلق و غیر واضح شکل میں نہیں تھا بلکہ ایک مکمل شکل اختیار کر چکا تھا۔ مختصر یہ کہ 1979 کے بعد فرقہ واریت سعودی عرب سے وابستہ وہابی علماء، جو خالص اسلام اور شیعی اسلام میں اعتقادی عدمِ توافق پر زور دیتے تھے، سے دیوبندی سیاسی مہم جوؤں کو منتقل ہو گئی، جو شیعیت کو اپنے سیاسی عزائم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے (Fuchs, 2019: 152– 185) –
اگلے صفحات میں میری توجہ پاکستان کی سب سے اہم شیعہ دشمن جماعت، سپاہِ صحابہ، پر ہو گی۔ اس کا قیام 1985 میں ہوا تھا اور 2009 سے اس جماعت نے اپنا نام ”اہلسنت والجماعت“ رکھ لیا ہے (Zaman, 1998; Abou Zahab, 2009)۔ آجکل شاید یہ مستقیم طور پر شیعہ مخالف تشدد میں ملوث نہیں ہوتی لیکن تمام شیعہ دشمن تنظیموں میں سب سے زیادہ یہی تنظیم شیعوں کے خلاف حملوں کی فضا ہموار کرتی ہے۔ نیز بدنامِ زمانہ لشکرِ جھنگوی کے دہشتگردوں کے اس جماعت کے کارکنان کے ساتھ گہرے روابط ہیں، ایسے تعلقات کا واضح ترین اظہار 2012 میں اس جماعت کی طرف سے لشکرِ جھنگوی کے بانی رہنما ملک اسحاق (متوفی 2015) کو نائب صدر بنانا تھا (Mehmood, 2012)۔ میرا تجزیہ اس جماعت کی تین مؤثر اور نمایاں آوازوں پر مرکوز ہے: اس جماعت کے سابقہ سربراہ علی شیر حیدری متوفی 2009، موجودہ چیئرمین محمد احمد لدھیانوی (Arshad, 2007) اور موجودہ مرکزی صدر اورنگزیب فاروقی (Hanafi, 2014a) ہیں۔ ان تینوں میں سے ہر ایک دیوبندی مدارس میں تربیت پانے والا مذہبی عالم ہے اور انہوں نے اپنی تمام تعلیم پاکستان میں ہی حاصل کی ہے۔
اپنے سابقہ مقالے (Fuchs, 2017b) میں پیش کردہ تحقیق پر بنیاد رکھتے ہوئے اس مقالے میں دو اہم نکات کو ثابت کروں گا۔
پہلا یہ کہ سعودی اور پاکستانی علماء کے فرقہ وارانہ استدلالات جداگانہ راہوں پر سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان میں فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ سپاہِ صحابہ کیلئے فرقہ واریت کا سیاسی پہلو استدلال کی اہم بنیاد ہے۔ ایسا نہیں کہ مکتبی و اعتقادی مسائل کو بنیادی اور حتمی اہمیت حاصل ہو اور سیاسی پہلو ایک اضافی حیثیت رکھتا ہو۔ اپنے سعودی رفقاء کے برعکس سپاہِ صحابہ کے رہنماؤں کی فکر محض بدلتے ہوئے جغرافیائی سیاسی حالات کا ردِعمل نہیں ہے بلکہ پاکستان کی روح کو ایک نظریاتی سنی (دیوبندی) ریاست کے طور پر دیکھنا ان کا نصب العین ہے۔ یہی سیاسی مقصد ان کے ہاں شیعی علامات و تصورات کو اپنے مطابق ڈھالنے اور ان کی نقالی کرنے کے رجحان کی توجیہ کر سکتا ہے۔ سعودی عرب کے علماء کے ذہن میں یہ کام کرنے کا خیال بھی نہیں آ سکتا (Ismail, 2016: 12)۔
جہاں تک دوسرے نکتے کا تعلق ہے تو وہ یہ ہے کہ ان ہنگامی سیاسی ضروریات نے سپاہِ صحابہ کے علماء کو مجبور کیا کہ وہ اپنے مذہبی ورثے پر تجدیدِ نظر کریں اور مناظرانہ مواد میں تازگی پیدا کریں۔ مثال کے طور پر انہوں نے صحابہ ؓکی شان میں غیر معمولی غلو کیا، جو سنی روایت میں ایک بدعت تھی (Khalek, 2014) ۔ اس مبالغے کے نتیجے میں انہوں نے صحابہؓ کو شیعہ آئمہ کے مقابلے کی متعالی اور منصوص منَ اللہ شخصیات کے طور پر پیش کیا (Halm, 2004: 28–44)۔ اگلے مرحلے میں اسلام اور خلافت کے ایک مثالی نظام ِ سیاست کے چوکیدار اور ضامنوں کے طور پر صحابہ کے منظم انداز میں دفاع کی سرگرمی نے دور رس اثرات مرتب کئے۔
مختصر یہ کہ پاکستان کی مثال جنوبی ایشیا ء میں شیعہ سنی فرقہ واریت کو بڑھانے، یا اس کو امن و سلامتی کا مسئلہ بنانے میں سعودی عرب کے مرکزی کردار کے مفروضے پر سنجیدہ سوال کھڑے کرتی ہے۔ روایتی فکریہ سمجھتی ہے کہ یہ عمل سعودی عرب کی نظریاتی اور مالی امداد کے سہارے ہو رہا ہے، جو کہ دنیا میں شیعہ ستیزی کا مرکز ہے (Vatanka, 2015: 175)– اگرچہ میں پسِ پردہ مالی امداد کے امکان کو رد نہیں کرتا، لیکن سعودیوں کی طرف سے پاکستان میں جو روابط قائم کئے گئے، خصوصاً پاکستانی اہل حدیث علماء کے ساتھ، وہ سب ایران میں انقلاب آنے سے پہلے قائم ہو چکے تھے اور ان کے پیچھے جغرافیائی سیاسی مقاصد کارفرما نہیں تھے۔ ان حلقوں میں جن خیالات کو پھیلایا گیا وہ قدیم شیعہ مخالف مناظرانہ استعاروں پر مبنی تھے اور ان میں اعتقادی اختلافات کو مرکزی حیثیت حاصل تھی اور وہ کسی قسم کے آشکارا سیاسی مواد سے بالکل پاک تھے۔ اہل حدیث گروہ کے سلفی حضرات کے برعکس سپاہِ صحابہ کے رہنما، جو 1980 کی دہائی کے ابتدائی سالوں سے فرقہ واریت کے منظر نامے پر غالب ہیں، پاکستان کے دیوبندی حلقوں میں مذہبی پیشوائی تک پہنچنے کیلئے سعودی پشت پناہی کے محتاج نہیں ہیں۔ ان کی مقامی اردو زبان میں تقریروں کو نہ تو وسیع تر مشرق وسطیٰ کی فرقہ وارانہ ابحاث سے کوئی مماثلت ہے نہ ہی ، جہاں تک میرے علم میں ہے، وہ عربی میں ترجمہ ہوئی ہیں۔مزید یہ کہ، جیسا کہ میں نے ایک اور مقام پر بھی ثابت کیا ہے، اس بات کا کوئی قابلِ توجہ ثبوت نہیں ہے کہ 1980ء کے افغان جہاد نے پاکستان میں موجود فرقہ واریت کو فیصلہ کن انداز میں تبدیل کیا ہو۔ متعدد جہادی گروہوں کیلئے سعودی مالی اعانت کے باوجود، ان تنظیموں سے مربوط رسالے اور نشریات فرقہ وارانہ مواد سے پاک رہیں (Fuchs, 2017a) – آنے والے بند اندرونی تحفظات اور بیرونی اثرات میں کھینچا تانی کو مزید تفصیل سے بیان کریں گے۔
سپاہِ صحابہ کی فرقہ واریت میں سیاست کی فوقیت
احسان الہٰی ظہیر کیلئے شیعیت ایک نظری اور اعتقادی مسئلہ تھا۔ انکی کتب، چاہے 1979 کے ایرانی اسلامی انقلاب سے پہلے کی ہوں یا بعد کی، کوئی سیاسی پہلو نہیں رکھتیں۔ انہوں نے شیعہ سنی وحدت کے امکان کو عبث قرار دیا ۔ انکے مطابق شیعہ اصحابِ رسولؐ کو غلطیوں سے پاک نہیں مانتے ، ان پر تحریفِ قرآن کا الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ انہوں نے شیعہ آئمہؑ کی خلافت کا اعلان کرنے والی آیات مٹا دیں (Brunner, 2019; Fuchs, 2019: 162–169)۔ اسلامی انقلاب کے بعد کے چالیس سالوں میں سعودی علماءکے شیعہ مخالف استدلالات انہی خطوط پر چلتے رہے ہیں۔ ان کی فرقہ وارانہ تبلیغات میں شیعوں کے اہلبیتؑ کو خدا کا شریک ٹھہرانے اور عبدالله ابنِ سبا یہودی کی سازش ہونے جیسے روایتی الزامات پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ سعودی علماء نے ایران کے نظامِ حکومت، یعنی ولایتِ فقیہ، کے سیاسی اثرات پر توجہ دینے سے گریز کیا ہے اور الٹا شیعیت پر اعتقادی نوعیت کے حملوں میں اضافہ کیا ہے (Ismail, 2016: 144–152, 157–162, 166–189)۔ اسماعیل کے بقول، سعودی عرب کی شیعہ مخالف نشریات میں ایرانی انقلاب کے بعد جوواحد نمایاں تبدیلی آئی وہ تقیہ کو نفاق قرار دینے پر زور دینا تھا۔ بالخصوص روایتی سعودی علماء، جو سعودی مذہبی ڈھانچے پر غلبہ رکھتے ہیں، نے سعودی شیعوں کو مکار اور سعودی قوم کا غدار کہنا شروع کیا، یہ چیز شروع کے سعودی علماء کے ہاں نہیں ملتی (Ismail, 2016: 203) ۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان علماء نے ایران کی صدورِ انقلاب کی مہم کے جواب میں ایک متبادل سیاسی منصوبہ وضع کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی ۔ اس عدم رغبت کو سعودی معاشرے میں سیاسی مکالمے پر عائد شدہ قدغن کے اثر کے طور پر سمجھا جا سکتاہے۔ وہاں ریاست نظامِ سیاست کے متبادل کی سوچ تو کیا بادشاہت پر کسی بھی قسم کی تنقید کا بھی موٴثر انداز میں قلع قمع کرتی ہے (Al–Rasheed, 2007: 59–101)۔
ان کے برعکس پاکستانی سپاہِ صحابہ کے علماء مسلکی اختلاف کو شیعہ عوام پر کئے جانے والے حملوں کیلئے سیاسی نصب العین کے طور پر استعمال کرتے ہیں، اور اپنے مسلکی مخالفین کو یہ الزام دیتے ہیں کہ وہ ریاستِ پاکستان ک نظریاتی اساس (جو علامہ شبیر احمد عثمانی کے نظریہء پاکستان کے مطابق دیوبندی ہے) کی مخالفت پر تلے ہوئے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر سال نویں اور دسویں محرم کو شیعوں کا یہ ارادہ کھل کا سامنے آ جاتا ہے جب وہ اپنے تیسرے امام، حضرت امام حسینؑ کی شہادت کی یاد مناتے ہیں، جو 680 کو کربلا میں شہید کئے گئے۔ سنی فرقہ پرست رسالے کہتے ہیں کہ ان ایام میں پاکستان کے نشریاتی ادارے اور سماجی زندگی شیعہ رنگ میں رنگ جاتی ہے (Husayn, 2014; Ta’aruf. . . Aghraz. . . Nasb al–‘ayn, n.d: 15; Ahl–i Sunnat, 2014) ۔
سپاہ ِصحابہ کے مطابق عصرِ حاضر کے پاکستان میں سنی اکثریت اسی قسم کے امتیازی سلوک کا نشانہ بنی ہوئی ہے جو کفارِ مکہ اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھتے تھے (Ludhiyanvi, 2007c: 74)۔ ان کے بقول وہ ریاستِ پاکستان کی دہشتگردی کا شکار ہیں جو ایران کی پشت پناہی سے یہ کام کر رہی ہے (Siddiqi, 2014)۔ پاکستانی ریاست نے خلافتِ راشدہ کا نظام قائم کرنے کے وعدے سے انحراف کر لیا ہے، جو اسکو موجودہ خرابیوں سے نجات دے سکتا تھا اور دنیا پر اسلام کے غلبے کا پیش خیمہ ہو سکتا تھا (Metro News, 2014: min. 01:15; Ta’aruf. . . Aghraz. . . Nasb al–‘ayn, n.d: 13–14)۔ ان کے مطابق صاحبانِ حل و عقد الٹا ان لوگوں کے خلاف کاروائی کرتے ہیں جو صحابہؓ کو ایسے نظام کا نمونہ بتاتے اور صحابہؓ پر تنقید کا رد کرتے ہیں جو اس نظام کو مشکوک بناتی ہے (Haydari, 2010c: 53–54; Faruqi, 2014a: 24)۔ یہ تنظیم خود کوپاکستان میں فرقہ واریت کا سب سے بڑا شکار قرار دیتی ہے (Faruqi, 2014b, 2018: min. 22:40; Ahl–i Sunnat, 2015; Fayyaz, 2015: min. 12:30)۔
لدھیانوی کے بقول صرف احتجاج پر قانع رہنے اور ریاست کے خلاف کوئی مسلحانہ اقدام نہ کرنے وجہ صرف یہ ہے کہ وہ پاکستان کو اپنا وطن سمجھتے ہیں۔ انکا اپنے گھر کو آگ لگانے کا کوئی ارادہ نہیں کیونکہ وہ پاکستان کے اصلی وارث ہیں۔ (Ludhiyanvi, 2007d: 224–225)۔
پاکستان میں مبینہ شیعہ سازشوں کا رد
اپنے سعودی رفقاء کی طرح پاکستانی فرقہ پرست علماء بھی شیعوں کے غدار ہونے پر زور دیتے ہیں۔ لیکن یہ برائت آسان نہیں ہے: پاکستان میں شیعہ علماء بہت سے اہم مذہبی اہداف کے حصول میں سنی علماء کے کے ساتھ ہراول دستہ بنے رہے ہیں ۔ چنانچہ ایسے تمام کاموں کو تقیہ قرار دیا جاتا ہے، چاہے وہ تحریکِ پاکستان میں کردار ہو یا تحریکِ ختم نبوت ہو یا ذوالفقار علی بھٹو (متوفی 1978) کی بائیں بازو کی سیاست کی مخالفت ہو۔ دیوبندی اکابر کے اس مکارانہ چال میں پھنسنے کا کفارہ ایران کے انقلاب کے بعد اسکے خلاف مہم چلانے کو قرار دیا جاتا ہے۔ ان کے مطابق تمام امتِ مسلمہ آیت اللہ خمینی کے خطرے کا ادراک کرنے میں ناکام رہی۔ سپاہِ صحابہ کی نشریات اس جوش و خروش کا ذکر کرتی ہیں جو 1979 کے موسمِ بہار میں پوری اسلامی دنیا میں پایا جاتا تھا۔ ایرانیوں نے ”لا شرقیہ و لا غربیہ، لا شیعیہ و لا سنیہ، اسلامیہ اسلامیہ“ کا نعرہ لگا کر سب کو مسحور کر دیا تھا۔ ”بڑے اہلِ علم نے عقائدِ شیعہ کا پورا باب فراموش کر کے خمینی کے قصیدے پڑھنے شروع کر دیئے“ (Ta’aruf. . . Aghraz. . . Nasb al–‘ayn, n.d: 6)۔
تاہم، سپاہِ صحابہ کے مطابق، سنیوں کی خوش قسمتی تھی کہ شیعوں نے کچھ غلطیاں کیں۔ شیعوں نے انقلابی جوش میں آ کر اپنی متعدد کتب کا پہلی بار ترجمہ کر کے ان کو عالمی سطح پر شائع کیا۔ اس طرح انہوں نے خود ہی اپنے چودہ سو سالہ تقیہ کے نقاب کو اتارپھینکا (Ta’aruf. . . Aghraz. . . Nasb al–‘ayn, n.d: 7; Hassan, 2014: min. 02:50)۔
نتیجتاً سینکڑوں ایسی کتب اردو میں ترجمہ ہو گئیں جن میں صحابہ ؓپر تنقید شامل تھی (Faruqi 2014a: 25)۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران نے 1980 میں بننے والی (جنرل ضیاء کے نفاذِ اسلام کے منصوبے میں شیعوں کیلئے) فقہٴ جعفریہ کے نفاذ کی تحریک کو استعمال کرنا شروع کر دیا جسے مبینہ طور پر”آیت اللہ خمینی کے نظریات کے پرچار کیلئے قائم کیا گیا تھا“ اور جو ”نظریہٴ پاکستان اور اکثریتی سنی ملک کے عقائد کے خلاف تھی“ (Ta’aruf. . . Aghraz. . . Nasb al–‘ayn, n.d: 7–8)۔
سپاہِ صحابہ اپنے بانی رہنما حق نواز جھنگوی کو اس سازشی چال کے خلاف عالمی سطح پر اقدام اٹھانے والا پہلا شخص قرار دیتی ہے، جسے واضح طور پر جنرل ضیاء الحق کے نفاذِ اسلام کے منصوبے سے طاقت ملی (Fuchs, 2019: 160–162)۔ اس کے مطابق اس جوان اور بہادر جہادی نے اسلام کے خلاف ایران کی بغاوت اور کفریہ نظریئے کا مقابلہ کرنے کی نیت سے پاکستان بھر میں جلسے منعقد کئے اور ایک مشکل کام کا بیڑہ اٹھایا۔ اسکے پیشرو تو صرف اپنے ہم عصر شیعہ علماء کا سامنا کرتے تھے جبکہ جھنگوی کو مبینہ طور پر ایک شیعہ ریاست کے تمام وسائل اور طاقت کے ہمہ جہتی دباوٴ کا سامنا تھا (Ta’aruf. . . Aghraz. . . Nasb al–‘ayn, n.d: 8–9)۔
جھنگوی نے دہری حکمت عملی اپنائی۔ پہلے تو اس نے 1986 میں ہی اپنے دائرہٴ اثر کو ملک بھر میں پھیلایا۔ دوم اس نے اہلسنت کے تمام فرقوں کو دفاعِ صحابہ اور نفاذِ خلافت کے نام پر متحد کرنے کی اہمیت کو سمجھا اور اس تجربے کو باقی مسلمان ممالک میں دہرانےکی امید ظاہر کی (Ta’aruf. . . Aghraz. . . Nasb al–‘ayn, n.d: 9–10, 28–29)۔
سپاہِ صحابہ کے بقول اس کو جلد ہی کامیابی ملنے لگی اور وہ پاکستان کی سب سے بڑی مذہبی جماعت بن گئی، جو ہر حکومتی پابندی کے بعد دوبارہ ابھر آئی (Hanafi, 2014b)۔ سن 2000 سے اسکے رہنماء صوفیانہ تعبیرات کا استعمال بھی کر رہے ہیں تاکہ یہ تاثر پیدا کر سکیں کہ خدا اسکے اہداف کی تائید کرتا ہے: خواب ، جو آج کل کی مسلم ذہنیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں (Mittermaier, 2011)، بیان کئے جا رہے ہیں جن کے مطابق سپاہِ صحابہ کے سابقہ قائدین جنت کے باغات میں خصوصی نعمتوں سے بہرہ ور ہو رہے ہیں (Ludhiyanvi, 2007a: 235; 2007c: 78–79)۔ ماضی کی کامیابیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے احمد لدھیانوی نے مجمع کو بتایا کہ کس طرح اس گروہ کے سابقہ رہنما اور رکنِ قومی اسمبلی اعظم طارق (متوفی 2003) نے 1994 میں خود کو سپیکر کی کرسی تک پہنچایا اور ناموسِ صحابہ بل کی منظوری کا اعلان کیا جس کے مطابق صحابہؓ پر تنقید کی سزا موت ہو گی۔ اینڈریاس رائک کے مطابق یہ اس وقت ہوا جب اسمبلی کے اکثر ارکان حزبِ اختلاف کے ”غیر دستوری طرزِ عمل“کے خلاف واک آوٹ کر چکے تھے (Rieck, 2015: 254)۔ لدھیانوی کا کہنا تھا کہ قابلِ غور بات یہ ہے کہ باقی ارکانِ قومی اسمبلی کی طرف سے تالیاں بجائی گئیں اور حمایت کا اظہار کیا گیا ،جس سے پتا چلتا ہے کہ قومی اسمبلی اور عوام میں سپاہِ صحابہ کے فرقہ وارانہ اہداف کو خاموش اکثریت کی حمایت حاصل ہے (Ludhiyanvi, 2007a: 231–232)۔
پاکستانی فرقہ واریت کے سیاسی پہلو کی اولیت کے تناظر میں یہ نکتہ اجاگر کرنا ناگزیر ہے کہ سپاہِ صحابہ شیعوں اور ایرانی انقلاب کے تصورات اور علامتوں کو اپنے مقاصد کیلئے اپناتی رہی ہے تاکہ ان کا متبادل پیش کیا جا سکے (Zaman, 1998: 702–703)۔ جس طرح ایران میں آیت اللہ خمینی کے انقلابی لائحہٴ عمل سے مضبوطی سے جڑنے والے خطِ امام کے پیرو کہلاتے ہیں (Reda, 2014)، سپاہِ صحابہ بھی اپنے کارکنوں کو مشنِ جھنگوی پر کاربندرہنے کی تلقین کرتی ہے (Ludhiyanvi, 2007c: 76; 2007b: 113)۔ وہ لوگ جو اپنی آمدنی کا تیسرا حصہ سپاہِ صحابہ کو دیں، ان کو خصوصی طور پر سراہا جاتا ہے۔ یہ ”سخاوت“ شیعوں کے خمس سے بڑھ کر ہے (Kalyanavi, 2014)، وہ رقم جو شیعہ حضرات نے مرا جع کو دینی ہوتی ہے (Sachedine, 1980)۔ اسی طرح ایرانی جمہوریہ کی مسحور کن تمثیلات کی نقالی کرنے کیلئے سپاہِ صحابہ کی طرف سے اپنے شہیدوں کی عزاداری کرنے کا رواج دیکھا جا سکتا ہے (Ahl-e-Sunnat Media Cell, 2019)۔ یہاں جس مثال کا ذکر بڑا برمحل ہے وہ جولائی 2007 میں پاکستانی ریاست اور فوج کی اسلام آباد کی بدنامِ زمانہ لال مسجد میں موجود مسلح افراد، طلبہ اور علماء کے خلاف کاروائی کی یاد منانا ہے۔ سپاہِ صحابہ کو اس مدرسے اور اس کی قیادت کو، جو ہمیشہ شیعہ دشمن موقف اپناتی رہی تھی، اپنانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئی (Blom, 2018)۔
اس واقعے، کہ جس میں سو کے قریب مسلح افراد مارے گئے تھے، کی برسی سے خطاب کرتے ہوئے علی شیر حیدری نے کہا کہ واقعہٴ کربلا، جو شیعی شناخت میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے، بھی اس کے مقابلے میں دھندلا گیا تھا۔ کربلا میں اموی لشکر کے امام حسینؑ اور انکے ساتھیوں پر کئے جانے والے حملے سے زیادہ بچے اور عورتیں اسلام آباد میں قتل ہوئیں، جبکہ کربلا کے برعکس یہاں فرار کا راستہ بھی نہیں دیا گیا۔ جو لوگ لال مسجد میں محصور تھے ان کے پاس خوراک مہیا کرنے کا کوئی راستہ نہ تھا اور وہ امرود کے پتوں پر گذارا کر رہے تھے (Ludhiyanvi, 2007e: 282)۔ اگرچہ کربلا میں امام حسینؑ اور انکے ساتھیوں پر تین دن کیلئے پانی بند کیا گیا، لال مسجد میں سات دن پانی بند رہا۔ امام حسینؑ کے برعکس لال مسجد والے شہادت سے پہلے غسل نہ کر سکے (Haydari, 2010b: 264)۔ کربلا میں حملہ ایک عام میدان میں ہوا جبکہ اسلام آباد میں لوگوں کو عبادت گاہ میں مارا گیا۔ چنانچہ اسلام آباد میں ہونے والا محاصرہ سختی، دکھ، پریشانی، قربانی اور ظلم و ستم کے اعتبار سے بے مثال تھا (Haydari, 2010b: 265)۔ ان خطوط پر بات کر کے علی شیر حیدری نے نہ صرف پاکستان میں ایک بنیادی سیاسی تبدیلی پر زور دیا بلکہ اس نے اپنے ساتھیوں کو کربلا والوں سے بلند تر مرتبے کے شہید قرار دے کر شیعیت کے دل پر حملہ کیا۔
صحابہؓ کی شان میں غلو
مسلکی امتیاز پر مبنی سنی (دیوبندی) ریاست کے مطالبے کو مزید پختہ کرنے کیلئے سپاہِ صحابہ سے منسلک علماء نے صحابہ ؓکے بارے میں بے انتہا غلو کا مظاہرہ کیا، یہاں تک کہ بعض اوقات ایسا لگتا ہے کہ وہ ان کو خود رسولِ پاک محمدﷺ سے بھی زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ ان فرقہ پرست علماء نے خود کو صحابہؓ کے غلام (عبد) قرار دیا، ایک ایسی اصطلاح جو وہابی علماء کیلئے ناقابلِ برداشت ہوتی (Haydari, 2010e: 177)۔ سپاہِ صحابہ کے رہنماؤں کے لئے صحابہؓ پیغام ِ رسالت کے نور میں اضافہ بھی کرتے ہیں (Haydari, 2010e: 158)۔ صحابہؓ رسول اللہؐ تک جانے کیلئے لازمی پل کا کام کرتے ہیں کیونکہ کوئی مسلمان رسول اللہؐ سے ان کے واسطے کے بغیر اور مستقیم تعلق پیدا نہیں کر سکتا (Ludhiyanvi, 2007c: 82)۔ یہی اصول ان کیلئے کسی حدیث کے صحیح ہونے یا نہ ہونے کا معیار ہے۔ سپاہِ صحابہ کے لئے صرف وہی حدیث قابلِ قبول ہے جس پر صحابہؓ کا عمل کرنا ثابت ہو۔ اگر تاریخ میں آنے والے صحابہؓ کے اعمال کسی حدیث کے خلاف ہوں تو وہ حدیث ضعیف یا من گھڑت ہے (Haydari, 2010e: 168)۔ ایک بڑی مصیبت وہ حدیث ہے جو سنی صحاح کتب میں بھی پائی جاتی ہے اور اس پر شیعہ بہت زور دیتے ہیں۔ اس کے مطابق رسول اللہؐ نے اپنے بعد مسلمانوں کو ثقلین، یعنی قرآن اور اہلبیتؑ، سے متمسک رہنے کی وصیت کی تھی۔ اس روایت کی بنیاد پر شیعوں کا یہ کہنا ہے کہ قرآن کی صحیح تفسیر جاننے کیلئے آئمہٴ اہلبیت ؑسے رجوع کرنا ضروری ہے۔ حدیث کے مطابق قرآن و اہلبیتؑ ہمیشہ ساتھ ساتھ موجود رہیں گے (Bar-Asher, 1999: 93–98)۔ اس ”خطرے “کو کم کرنے کیلئے علی شیر حیدری نے یہ دعویٰ کیا کہ خدا نے مسلمانوں کیلئے دو قبلے بنائے ہیں۔ ایک وہ کعبہ ہے جو مکہ میں ہے جو نماز کے رخ کو متعین کرتا ہے اور دوسرا قبلہ صحابہؓ ہیں کہ جن کی طرف رخ کر کے ہی مسلمان رسول اللہؐ کی اطاعت کر سکتے ہیں (Haydari, 2010a: 108–109)۔ رسول اللہؐ نے سارا دین اور اسکی ضروریات صحابہؓ کے پاس رکھ دیں اور انہوں نے اپنے سینوں کو قرآن سے بھر لیا (Haydari, 2010e: 169)۔ چنانچہ سپاہِ صحابہ کے لئے صحابہؓ ویسے ہی غیرمعمولی مقام و مرتبے کے حامل ہو گئے جو شیعوں کے ہاں آئمہٴ اہلبیتؑ کو حاصل تھا۔ انکے الفاظ اور اقوال ہر مرض کا علاج اور ہر مسئلے کا حل قرار پائے (Ta’aruf. . . Aghraz. . . Nasb al–‘ayn, n.d: 34)۔
صحابہؓ کا اجتہاد ایسی خاص اہمیت کا حامل ہے کہ ان کی آراء اور اعمال کا احترام ضروری ہے چاہے اسکی شرعی توجیہ آج کل کے مومنین کی سمجھ میں نہ آئے۔ انکے بقول صحابہؓ کے عمل کو قرآن کی متشابہ آیات سے بھی جوڑا جا سکتا ہے جن کو مسلمان پوری طرح سمجھے بغیر بھی خدا کا کلام مانتے ہیں (Kinberg, 1988)۔ جس طرح قرآن کی سب سورتیں اللہ کی آیات ہیں، صحابہؓ بطورِ مجموعی اللہ کی جماعت ہیں (Haydari, 2010d: 66–67)۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ، جن پر ایمان شیعوں اور سنیوں کیلئے مشترکہ ورثہ تھا، کے بجائے صحابہؓ کو ہدایت کا مرکز قرار دے کر انہوں نے شیعوں اور سنیوں کے درمیان مشترکات کو محدود تر کر دیا۔ سپاہِ صحابہ کا بظاہر خود کو اتحاد بین المسلمین کا علمبردار کہنا عبث ہے جب وہ اہلبیتؑ، جو شیعوں کیلئے بہت عزیز ہیں، سے بھی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے اہلبیتؑ کی شناخت کو بھی اپنی تنگ نظر سوچ کے مطابق بدلنے کی کوشش کی۔ ان فرقہ پرست علماء کیلئے اہلبیتؑ سے مراد امہات المومنینؓ ہیں۔ یہ موقف نہ صرف شیعوں بلکہ معتدل سنیوں کی تفسیر کے بھی خلاف ہے، جن کے مطابق اہلبیتؑ سے مراد دخترِ پیغمبر فاطمہؑ، انکے شوہر علیؑ اور انکے بیٹے حسنینؑ اور انکی اولاد ہے۔ اگرچہ اہلسنت میں ازواجِ نبی کو اہلبیتؑ میں شمار کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں لیکن اہلبیتؑ کو ازواج نبی سے مخصوص کرنے کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں (Sharon, 1986)۔ پچھلے چند سالوں سے سپاہِ صحابہ کی توجہ حضرت عائشہؓ پر مرکوز ہے۔ وہی عصمت و پاکیزگی جو شیعہ اپنے آئمہؑ سے منسوب کرتے ہیں، یہ حضرت عائشہؓ سے کر رہے ہیں۔ ان کو ایک ایسے مکمل مسلمان مجتھد کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جن سے مرد صحابہؓ بھی فتوے لینے کیلئے رجوع کرتے تھے (Faruqi, 2014a: 25)۔ صحابہؓ کا رتبہ اسقدر بڑھانے کے بعد اگلا مرحلہ ”دفاعِ صحابہ“ کو حق اور باطل کا معیار قرار دینا تھا۔ وہ لوگ جو صحابہؓ کے اس غیر معمولی تقدس کا دفاع کر رہے تھے وہ اسلام کی قیمتی ترین تجلی اور اصلِ ایمان کے مدافع قرار پائے (Faruqi, 2014a: 18–19)۔ علی شیر حیدری کے بقول سپاہِ صحابہ کے کارکنان کو سارے دین کا چوکیدار سمجھا جانا چاہیے (Haydari, 2010e: 175)۔
اس کا یہ مطلب لیا گیا کہ تاریخ میں جن لوگوں نے صحابہؓ کے افعال کا دفاع کیا تھا وہ نماز، حج اور کلمے جیسے اسلام کے لازمی ارکان کے مدافع بھی تھے۔ چنانچہ، سپاہِ صحابہ کے مطابق، دفاعِ صحابہ پاکستان میں چند دہائیاں پہلے بننے والی کسی تنطیم کا مسئلہ نہیں ہے (Haydari, 2010e: 176–177)۔ سپاہِ صحابہ نے یہ بیانیہ تشکیل دیا کہ خدا بھی اس سوچ کو قبول کرتا ہے اور اس سلسلے میں وہ سورة الفتح کی اٹھارویں آیت کو پیش کرتے ہیں جس کے مطابق خدا ان اہلِ ایمان سے راضی تھا جنہوں نے درخت کے نیچے پیغمبرِ اکرمؐ کی بیعت کی تھی۔ اسلامی مصادر کے مطابق یہ آیت 628 میں نازل ہوئی۔ پیغمبرؐ اور انکے اصحابؓ کے ایک بڑے گروہ نے عمرہ کرنے کی نیت سے مکہ جانا چاہا تھا مگر شہر میں داخل نہیں ہو سکے تھے۔ مکہ والوں کے لشکر سے بچ کر وہ صحرا میں ایک گاوں میں آرام کیلئے رکے اور اپنے دشمنوں سے مذاکرات کا آغاز کیا۔ اس دوران یہ افواہ پھیلی کہ انکے ایک سفیر عثمان ابن عفانؓ (متوفی 656)، جو بعد میں تیسرے خلیفہ بنے، مار دیئے گئے ہیں۔ رسول اللہؐ نے اپنے ساتھیوں کو تجدیدِ بیعت کیلئے کہا تاکہ ان سے عہد لیں کہ وہ انکا فیصلہ قبول کریں گے (Watt, 2012)۔ تاہم اورنگزیب فاروقی نے اس کی انوکھی تفسیر کر ڈالی (Görke, 1997)۔ اس کے مطابق اس بیعت کا مرکزی نکتہ خونِ عثمانؓ کا انتقام لینا تھا۔ اور چونکہ وہاں موجود اصحابؓ نے ایک صحابیؓ اور اسکی ناموس کے ساتھ عقیدت کا اظہار کیا، اللہ نے ان سے راضی ہونے کا اور ان کے جنتی ہونے کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ آج کے دور میں سپاہِ صحابہ پورے ایمان کے ساتھ پیغامِ رسالت کے اس اہم حصے پر عمل کر کے خدا کے خصوصی انعامات کی حقدار ٹھہرتی ہے (Faruqi, 2014a: 28–30)۔
اگر کوئی اس تنظیم کے ایسی شخصیات سے منسلک ہونے پر اعتراض کرے کہ جن کا موجودہ پاکستان سے بظاہر کوئی تعلق نہیں تھا، تو سپاہِ صحابہ کے رہنما زور دے کر کہیں گے کہ کچھ صحابہؓ نے اس خطے میں قدم رکھا ہے جوقابل ِمحسوس بھی ہے۔ محمد احمد لدھیانوی کا کہنا ہے کہ ایک مرتبہ وہ اور علی شیر حیدری سندھ کے شہر خیر پور کے قریب سے گذرے جہاں وہ سڑک سے اتر کر ایک جگہ زیارت کیلئے گئے۔ انکا مقصد ایک قدیم قبرستان میں تین اصحاب رسولؓ کی قبور پر حاضری دینا تھا جو 711 میں عربوں کی فتح سے پہلے اس علاقے میں آئے تھے۔ کچھ دن پہلے مقامی افراد ایک قبر کے قریب نئی قبر کھود رہے تھے کہ کچھ ایسے عجیب واقعات ہوئے جو وہ لوگ سپاہِ صحابہ کی قیادت کے علم میں لانا چاہتے تھے۔ سب سے پہلے تو ان ”صحابہؓ“ کی قبور سے ایک میٹھی خوشبو آنا شروع ہوئی کہ جو پورے علاقے میں پھیل گئی۔ (پھر دیکھا گیا کہ) ان تینوں ”صحابہؓ“ کے اجسام، یہاں تک کہ کفن بھی، صحیح و سالم تھے۔ ایک مقامی شخص نے ایک ”صحابی ؓ“کے ماتھے کو چھوا تو اسے تازہ پسینہ محسوس ہوا جس کی خوشبو ایک ماہ تک اسکے ہاتھ سے آتی رہی (Ludhiyanvi, 2007b: 287–290)۔ سپاہِ صحابہ میں ان ”صحابہؓ“ کے مادی اجسام سے تمسک میں اہل قبور کے ساتھ ثقافتی تعلق کو سیاسی انسجام اور اخلاقی جواز کی بنیاد قرار دینے کی روایت کو قبول کرنے کا اظہار ہوتا ہے (Kugle, 2007: 60–68)۔ صحابہؓ کی تکریم میں محدود رہنے کی اس نئی ثقافت میں ملک کے شیعوں کیلئے کوئی جگہ نہیں رکھی گئی ہے۔
نتیجہ
پاکستان کے شیعہ دشمن عناصر کی سوچ 1970 کی دہائی سے آگے بڑھ چکی ہے، جب مدینہ کی اسلامی یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے احسان الہٰی ظہیر پاکستان آئے اور پرزور انداز میں شیعوں کو کافر قرار دینے کی مہم چلائی۔ سپاہِ صحابہ نے انہی خطوط پر کام کرنے اور قدیم مسلکی استعاروں کو استعمال کرنے کے بجائے فرقہ واریت کو ایک نیا اور اچھوتا رنگ دیا جو سعودی (یا مقامی ) مذہبی رہنماؤں کے مناظرانہبحث کے انداز سے مختلف ہے۔ اس تنظیم سے تعلق رکھنے والے علماء نے شیعوں کے وجود کو ملک کے بنیادی سیاسی نظریئے ، جو انکی نظر میں اسلام کے عالمگیر غلبے سے عبارت ہے،کیلئے نقصان دہ قرار دیا۔
اپنے استدلال کو قوی تر بنانے کیلئے وہ دو دھاری تلوار کو استعمال کرتے ہیں۔ ایک طرف وہ صحابہؓ کے بارے میں غلو کرتے ہوئے ان کو شیعیت میں آئمہؑ کے مقابلے پر لے آتے ہیں اور دوسری طرف وہ اپنا پورا زور اس بات پر لگا دیتے ہیں کہ صحابہؓ کا دفاع تمام مذہبی فرائض کا محور ہے۔ جنوبی ایشیاء اور مشرقِ وسطی میں پیدا ہونے والے ان مسلکی اور سیاسی نظریات کا گٹھ جوڑ ایسی سماجی حرکت پیدا کرتا ہے جو شیعہ سنی قربت کے امکانات کو بہت کم کرتی جا رہی ہے۔ ایک بار ان خیالات کو ایک بدیہی حقیقت کے طور پر قبول کر لیا گیا تو ان کا توڑ کرنا بہت مشکل ہو گا۔
اس مقالے میں فرقہ واریت کے بیانئے کی مختلف پرتوں میں موجود فرق کو نمایاں کرنے کی اہمیت کو ظاہر کیا گیا ہے، جو پہلی نظر میں ایک جیسی لگتی ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ علاقہ بدلنے سے یہ سوچ تبدیل ہو جاتی ہے۔ اگرچہ شیعوں کی تکفیر (Friedmann, 2003: 54–86, 121–159) ایک مشترکہ ہدف ہے لیکن سعودی اور پاکستانی علماء کا طرزِ عمل فیصلہ کن انداز میں ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ لہذا میرا یہ ماننا ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے میں سعودی عرب کے کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا حقیقت سے دور کر دیتا ہے۔پاکستان کی سماجی اور سیاسی زندگی میں شیعوں کا حق دبانے کیلئے کام کرنے والا دیوبندی نیٹ ورک سعودی عرب کی مالی یا نظریاتی امداد کا محتاج نہیں ہے۔ اگرچہ وہ سعودی عرب کی طرف سے آنے والے سلفی خیالات کواپنانے کیلئے تیار ہیں، وہ عقیدتی مناظروں تک محدود نہیں رہتے۔ لہٰذا پاکستان میں شیعہ مخالف فرقہ واریت محض جنوبی ایشیاء کے میدان میں لڑی جانے والی سعودی عرب اور ایران کی پراکسی وار نہیں، بلکہ اس کا مقامی پہلو زیادہ اہم ہے۔
عقیدتی اختلافات کے غلبے کے مفروضے کو چھوڑ کر فرقہ واریت کے سیاسی پہلو کو سمجھنے کے لئے مزید مطالعات کی ضرورت ہے۔ ایسے کئی ممکنہ موضوعات موجود ہیں جو ان پہلوؤں کے حوالے سے مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیاء کے تقابلی جائزے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر داعش نے آخری زمانے کے بارے میں آنے والی روایات کو سیاسی چہرہ دے کر دنیا بھر سے جہاد کے شوقین افراد کو شام میں جمع کر لیا (McCants, 2015: 99–119)۔ لیکن آخری زمانے کو قریب لانا اور امام مہدیؑ کے آنے کیلئے میدان ہموار کرنے کا تصور تو شیعی فکر میں زیادہ نمایاں رہا ہے (Ourghi, 2009)۔ اسکے برعکس سپاہِ صحابہ اس قسم کے خیالات کو اپنانے سے بالکل الگ رہی ہے۔ الٹا ان کے فوت شدہ رہنما پیچھے رہ جانے والوں کو خوابوں میں یہ کہتے نظر آئے کہ وہ جنت جانے کی نسبت پاکستان میں شیعہ مخالف جہاد کو زیادہ پسند کرتے ہیں (Ludhiyanvi, 2007c: 79)۔ یوں سپاہِ صحابہ کی توجہ دنیاوی زندگی کے معاملات پر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ پاکستان کو اپنی تعبیر کے مطابق ڈھالنے میں کس قدر دلچسپی رکھتے ہیں؟
یہ داعش سے بالکل مختلف سوچ ہے، داعش تطہیرِ مسلک کے معاملے میں اپنے سلفی کٹر پن کا کھل کر اظہار کرتی ہے اور مسلح جدوجہد کے ذریعے روایتی سیاسی مراتب کے اعتبار سے ترقی کرنا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مشرقِ وسطی، خلیجِ فارس اور جنوبی ایشیاء میں فرقہ وارانہ نظریات کا دقیق مطالعہ اس پہلو کو بھی سامنے لائے کا کہ یہ نسلی برتری کے نظریات سے کس قسم کا تعلق رکھتے ہیں؟ سعودی علماء اکثر ایران کے خلاف خدا کے عربوں کو افضل قرار دینے دینے کا استدلال پیش کرتے ہیں (Ismail, 2016: 206)۔ پاکستانی فرقہ واریت کے بیانئے سے یہ استدلال بالکل غائب ہے، جس کی وجہ واضح ہے۔
تحقیق کا یہ میدان اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ فرقہ واریت کے عاملین کے فکری مواد کو سنجیدگی سے لیا جائے، جیسا کہ میں نے اس مقالے میں کوشش کی ہے۔ کس طرح یہ فرقہ پرست گروہ اپنا استدلال کھڑا کرتے ہیں، کیسے کسی کو غیر قرار دے کر اس کے خلاف اجنبیت کی فضا بناتے ہیں، زیادہ توجہ کا مستحق ہے۔ اس کو محض مادی مفادات، مثلاً طاقت اور نفوذ، کے حصول کیلئے پانی گدلا کرنے کی کوشش نہیں کہا جا سکتا۔علاقائی سیاست کے اثرات کو بھی مقامی بیانیے کی روشنی میں ہی سمجھنا بہتر ہو گا، جو فرقہ وارانہ سوچ کے مخاطبین کیلئے معنی رکھتا ہے۔
Fuchs, S. W., “Faded networks: the overestimated Saudi Legacy of anti–Shi’i sectarianism in Pakistan”, Global Discourses, vol. 9, no. 4, 703–715, (2019).
تحقیق: ڈاکٹر سائمن وولف گینگ فکث
ترجمہ: حمزہ ابراہیم
References
1. Abou Zahab, M. (Year: 2009) The SSP: Herald of militant Sunni Islam in Pakistan, in L.Gayer and C.Jaffrelot (eds) Armed Militias of South Asia: Fundamentalists, Maoists and Separatists, New York: Columbia University Press.
2. Ahl-i Sunnat (Year: 2014) Sarkari TV par sahabah-i kiram ki gustakhi lamhah-i fikriyya, 13–20 November, 2.
3. Ahl-i Sunnat (Year: 2015) Dahshatgirdi ke khilaf action men insaf lazimi he, 9–15 January, 2.
4. Ahl-e-Sunnat Media Cell (Year: 2019) Shuhada Day 2019’, 13 April, www.youtube.com/watch?v=0laNUh3Vbbs.
5. Ahmed, K. (Year: 2011) Sectarian War. Pakistan’s Sunni-Shia Violence and its Links to the Middle East, Karachi: Oxford University Press.
6. Al-Rasheed, M. (Year: 2007) Contesting the Saudi State: Islamic Voices from a New Generation, Cambridge: Cambridge University Press.
7. Arshad, M.N. (Year: 2007) Maulana Muhammad Ahmad Ludhiyanvi madda zillahu (khandani o jama‘ati halat-i zindagi par ek nazar), in M.N.Arshad (ed) Sada-yi Ludhiyanvi, Ahl-i Sunnat wa-l-Jama‘at, Kamaliyyah.
8. Bar-Asher, M.M. (Year: 1999) Scripture and Exegesis in Early Imāmī-Shiism, Leiden: Brill.
9. Blom, A. (Year: 2010) Changing religious leadership in contemporary Pakistan: the case of the Red Mosque, in S.M.Lyon and M.Bolognani (eds) Pakistan and Its Diaspora. Multidisciplinary Approaches, New York: Palgrave Macmillan.
10. Brunner, R. (Year: 2019) Die Schia und die Koranfälschung, 2nd edn, Wiesbaden: Harrasowitz.
11. Dastavezi film: ‘Allamah ‘Ali Sher Haydari, shahid-i namus-i sahaba (Year: 2011) Karar Productions, 30 October, www.youtube.com/watch?v=KSfswxASxLA. .
12. Farquhar, M. (Year: 2016) Circuits of Faith. Migration, Education, and the Wahhabi Mission, Stanford, CA: Stanford University Press.
13. Faruqi, A. (Year: 2014a) Difa‘-i sahabah kiyun zaruri he?, Kulaci: Jarvar Academy Pakistan.
14. Faruqi, A. (Year: 2014b) Mufti Munir Mu‘aviyah shahid ke mazlumanah qatl, 5 January, www.dailymotion.com/video/x19c9o6_allama-ghazi-aurangzeb-farooqui-s-speech-against-sunni-killing-in-pakistan-at-karachi-press-club-on_tv.
15. Faruqi, A. (Year: 2018) Maulana Aurangzeb Farooqi latest Speech – Jamia Hyderia | 4 May 2018 |, https://www.youtube.com/watch?v=5iem8Dyw6As.
16. Fayyaz, M. (Year: 2015) Doctor Muhammad Fayyaz shahid, akhiri taqrir, 22 February 2015, www.youtube.com/watch?v=BADzaw7dLyQ.
17. Friedmann, Y. (Year: 2003) Tolerance and Coercion in Islam. Interfaith Relations in the Muslim Tradition, Cambridge: Cambridge University Press.
18. Fuchs, S.W. (Year: 2017a) Glossy global leadership: unpacking the multilingual religious thought of the Jihad, in NGreen (ed) Afghanistan’s Islam: From Conversion to the Taliban, Oakland, CA: University of California Press.
19. Fuchs, S.W. (Year: 2017b) The long shadow of the state: the Iranian Revolution, Saudi influence, and the shifting arguments of anti-Shi‘i sectarianism in Pakistan, in L.Louër and C.Jaffrelot (eds) Pan-Islamic Connections: Transnational Networks between South Asia and the Gulf, London: Hurst.
20. Fuchs, S.W. (Year: 2019) In a Pure Muslim Land. Shi‘ism between Pakistan and the Middle East, Chapel Hill, NC: University of North Carolina Press.
21. Görke, A. (Year: 1997) Die frühislamische Geschichtsüberlieferung zu Ḥudaibiya, Der Islam, 74: 193–237.
22. Halm, H. (Year: 2004) Shi‘ism. New York: Columbia University Press.
23. Hanafi, T.M. (Year: 2014a) ‘Allamah Ghazi Aurangzeb Faruqi hamdard se le kar markazi sadr tak, Ahl-i Sunnat, 13–19 November, 2.
24. Hanafi, T.M. (Year: 2014b) Firqah varanah dahshatgirdi – sabab aur tadaruk, Ahl-i Sunnat, 11–17 December, 2.
25. Hassan, S. (Year: 2014) Clean chit with Aurangzaib Farooqui (A.S.W.J.), AbbTakk News, 22 February, www.dailymotion.com/video/x1d5o40_allama-ghazi-aurangzaib-farooqui-s-explain-objectives-of-sipah-e-shaba-in-clean-chit-on-abbtakk-news_news.
26. Haydari, A.S. (Year: 2010a) ‘Ibadat ka qibla bayt Allah aur ita‘at ka qibla sahaba kiram, in M.N.Qasimi (ed) Javahirat-i Haydari, Karachi: Idarat al-Anwar.
27. Haydari, A.S. (Year: 2010b) Karbala-yi Lal Masjid, in M.N.Qasimi (ed) Javahirat-i Haydari, Karachi: Idarat al-Anwar.
28. Haydari, A.S. (Year: 2010c) Payghambar-i inqilab, in M.N.Qasimi (ed) Javahirat-i Haydari, Karachi: Idarat al-Anwar.
29. Haydari, A.S. (Year: 2010d) Qur‘an aur sahib-i qur‘an, in M.N.Qasimi (ed) Javahirat-i Haydari, Karachi: Idarat al-Anwar.
30. Haydari, A.S. (Year: 2010e) Shan-i ahl-i bayt, in M.N.Qasimi (ed) Javahirat-i Haydari, Karachi: Idarat al-Anwar.
31. Haykel, B. (Year: 2011) Al-Qa‘ida and Shiism, in A.Moghadam and B.Fishman (eds) Fault Lines in Global Jihad: Organizational, Strategic and Ideological Fissures, Oxford: Routledge.
32. Husayn, ‘U. (Year: 2014) Noha aur matam… haqiqat ka asl-i rukh, Ahl-i Sunnat, 7–13 November, p 2.
33. Ismail, R. (Year: 2016) Saudi Clerics and Shi‘a Islam, New York: Oxford University Press.
34. Jones, J. (Year: 2011) Shi‘a Islam in Colonial India: Religion, Community, and Sectarianism, Cambridge: Cambridge University Press.
35. Kalyanavi, I.Z. (Year: 2014) Parvane sahaba razi Allah ‘anhum ke hafiz ‘Abd al-Rahman Bandhani shahid rahimmahu Allah, Ahl-i Sunnat, 11–17 December, 2.
36. Khalek, N. (Year: 2014) Medieval biographical literature and the companions of Muḥammad, Der Islam, 91(2): 272–94. doi: 10.1515/islam-2014-0012
37. Kinberg, L. (Year: 1988) Muḥkamāt and Mutashābihāt (Koran 3/7): implications of a Koranic pair of terms in medieval exegesis, Arabica, 35(2): 143–72. doi: 10.1163/157005888X00314
38. Kugle, S. (Year: 2007) Sufis & Saints’ Bodies. Mysticism, Corporeality & Sacred Power in Islam, Chapel Hill, NC: The University of North Carolina Press.
39. Ludhiyanvi, M.A. (Year: 2007a) A‘zam Tariq shahid o ummi ‘A’isha, in M.N.Arshad (ed), Sada-yi Ludhiyanvi, Kamaliyya: Ahl-i Sunnat wal-l-Jama‘at.
40. Ludhiyanvi, M.A. (Year: 2007b) Khatm-i nubuvvat o difa‘-i sahabah, in M.N.Arshad (ed) Sada-yi Ludhiyanvi, Kamaliyya: Ahl-i Sunnat wal-l-Jama‘at.
41. Ludhiyanvi, M.A. (Year: 2007c) Mahbub-i Subhani, in M.N.Arshad (ed) Sada-yi Ludhiyanvi, Kamaliyya: Ahl-i Sunnat wal-l-Jama‘at.
42. Ludhiyanvi, M.A. (Year: 2007d) Maulana Muhammad A‘zam Tariq, in M.N.Arshad (ed) Sada-yi Ludhiyanvi, Kamaliyya: Ahl-i Sunnat wal-l-Jama‘at.
43. Ludhiyanvi, M.A. (Year: 2007e) Sanihah-i Lal Masjid aur akabirin ki zimmahdari, in M.N.Arshad (ed) Sada-yi Ludhiyanvi, Kamaliyya: Ahl-i Sunnat wal-l-Jama‘at.
44. Metro News (Year: 2014) Maulana Aurangzeb Faruqi se Do Talk ki guftigu, 15 December, viewed on 06 November 2019, https://www.youtube.com/watch?v=suKjhAY4jTQ.
45. McCants, W. (Year: 2015) The ISIS apocalypse. The History, Strategy, and Doomsday Vision of the Islamic State, New York: St. Martin’s Press.
46. Mehmood, R. (Year: 2012) Malik Ishaq made vice president of banned ASWJ, The Express Tribune, 18 September, https://tribune.com.pk/story/438715/road-to-peace-ishaq-made-vice-president-of-banned-aswj..
47. Mittermaier, A. (Year: 2011) Dreams That Matter. Egyptian Landscapes of the Imagination, Berkeley, CA: University of California Press.
48. Ourghi, M. (Year: 2009) ‘Ein Licht umgab mich…’ – Die eschatologischen Visionen des iranischen Präsidenten Maḥmūd Aḥmadīnežād, Die Welt des Islams, 49: 163–80. doi: 10.1163/157006009X444307.
49. Qasim, M.N. (Year: 1998) Hayat-i A‘zam Tariq. Maulana Muhammad A‘zam Tariq ke mufassil halat-i zindagi, Faysalabad: Isha‘at al-Ma‘arif.
50. Reda, L.A. (Year: 2014) Khatt-e Emam: the Followers of Khomeini’s line, in A. Adib-Moghaddam (ed) A Critical Introduction to Khomeini, Cambridge: Cambridge University Press.
51. Rieck, A. (Year: 2015) The Shias of Pakistan. An Assertive and Beleaguered Minority, London: Hurst.
52. Sachedina, A. (Year: 1980) Al-Khums: the fifth in the Imāmī Shīʿī Legal System, Journal of Near Eastern Studies, 39(4): 275–89. doi: 10.1086/372828.
53. Sharon, M. (Year: 1986) Ahl al-Bayt – people of the house, Jerusalem Studies in Arabic and Islam, 8(1): 169–84.
54. Siddiqi, M.M. (Year: 2014) Sanihah-i Peshawar aur liberal soc, Ahl-i Sunnat, 26 December 2014–3 January 2015, 2.
55. Ta‘aruf… Aghraz… nasb al-‘ayn… Ahl-i Sunnat wa-l-Jama‘at kya cahti he? (Year: n.d.) Sha‘bah-i nashr o isha‘at-i Ahl-i Sunnat wa-l-Jama‘at, Islamabad.
56. Vatanka, A. (Year: 2015) Iran and Pakistan. Security, Diplomacy and American Influence, London: Tauris.
57. Watt, W.M. (Year: 2012) al-Ḥudaybiya, in P.Bearman, Th.Bianquis, C.E.Bosworth, E.van Donzel and W.P.Heinrichs (eds) Encyclopaedia of Islam, 2nd edn, Leiden: Brill, doi: 10.1163/1573-3912_islam_SIM_2922.
58. Zaman, M.Q. (Year: 1998) Sectarianism in Pakistan: the radicalization of Shi‘i and Sunni identities, Modern Asian Studies, 32(3): 689–716. doi: 10.1017/S0026749X98003217
59. Zaman, M.Q. (Year: 2018) Islam in Pakistan. A History, Princeton, NJ: Princeton University Press.