اس عجلت پر اپوزیشن بھی حیران ہے، کہ اچانک نئے سال پر حکومت کو پارلیمینٹ کا اجلاس طلب کرنے کی کیا سوجھی؟ ایک اور حیرت زدہ کرنے والی بات یہ بھی ہے کہ اس اجلاس کے ایجنڈے میں نہ تو نیب آرڈیننس ہے اور نہ ہی چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت کے حوالے سے قانون سازی جیسے اہم معاملات شامل ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رہنما سینیٹر شیری رحمٰن نے بھی 48 گھنٹے کا ٹائم دیے بغیر سینیٹ کا اجلاس بلانے کو نامناسب قرار دیا اور کہا کہ اس سے سینیٹرز کو دشواری کا سامنا ہو گا کیوں کہ سموگ کے سبب پروازیں دستیاب نہیں تو سندھ اور بلوچستان سے آنے والے کس طرح پہنچ سکیں گے۔
اسی حوالے سے رکنِ قومی اسمبلی شازیہ مری کا کہنا تھا کہ عقل سے خالی حکومت پارلیمان کو بھی اسی بے ہنگم انداز میں چلانا چاہتی ہے جس طرح ملک چلا رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ منگل کی شام 5 بجے اراکین اسمبلی کو میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا کہ اجلاس اگلے ہی روز ہوگا جس کے لیے نہ تو اراکین کو اعتماد میں لیا گیا نہ ہی کوئی نوٹیفکیشن جاری ہوا۔
نیا سال کسی بھی قوم کی زندگی میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوتا ہے، یہ دن گزشتہ سال کا جائزہ لینا ہی نہیں بلکہ نئے اہداف کے انتخاب اور ان کے حصول کے لیے منصوبہ بندی کا موقع بھی ہوتا ہے۔ یہ دن موقع فراہم کر رہا ہے کہ ہم گزشتہ برس کی کامیابیوں کا جائزہ لیں، تاکہ آگے کے سمت کا تعین کر کے آگے بڑھا جائے۔ یہ بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں اس وقت ایک ایسی سلیکیٹیڈ حکومت ہے، جس کی حیثیت متنازع ہے، عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ یہ ایک الیکیٹیڈ نہیں بلکہ سلیکیٹیڈ حکومت ہے۔ جو جمہوری اصولوں، پارلیمانی روایات کی بجائے طاقت کے اصولوں پر فیصلے کرتی ہے۔ جو عوامی مفادات سے زیادہ سلیکیٹرز، انویسٹرز، اور مافیاز کے مفادات کو آگے لے کر چلتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پارلیمانی اور عوامی مفادات کے حوالے سے اس کی گزشتہ برس کی کارکردگی ہمیں مائنس میں نظر آتی ہے۔ اپوزیشن سے تصادم، سلیکیٹرز کی طاقت پر اعتماد اور غیر سنجیدہ رویے کی وجہ سے گزشتہ پارلیمانی سال کے دوران کوئی خاطر خواہ قانون سازی نہیں کی جا سکی، عمران خان کی غیر حاضریوں، غیر سنجیدگی اور حکومتی تصادم پالیسی کیوجہ سے پارلیمنٹ کی کارکردگی بدترین رہی۔
پارلیمینٹ کی غیر فعالیت کی بڑی وجہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے ہیں۔ عمران خان اور اُن کے ساتھیوں کی رٹ ہے کہ اپوزیشن چور ہے ڈاکو ہے۔ جبکہ اپوزیشن کے نزدیک حکومت کی نمائندہ حیثیت متنازع ہے، یہ سلیکیٹیڈ حکومت ہے۔ اس صورتحال کی بڑی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
پارلیمانی ناکامی کیوجہ سے الیکشن کمیشن ’’غیر فعال‘‘ ہو گیا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کے ارکان کی تقرری کیلئے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان ’’ بامعنی مشاورت ‘‘ آئینی تقاضا ہے لیکن وزیر اعظم اپوزیشن لیڈر سے مشاورت کرنے کیلئے تیار نہیں۔
سینیٹ کا پارلیمانی سال مکمل نہ ہونے کا خدشہ ہے، پارلیمانی سال میں مطلوبہ تعداد میں اجلاس نہیں ہو سکے۔ وزارت پارلیمانی امور کو خط میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے لکھا کہ آئین کے مطابق مزید 54 روز میں اجلاس بلانا ضروری ہے، فوری اجلاس نہ بلایا گیا تو آئینی تقاضا پورا کرنے میں ناکام رہیں گے، آئینی خلاف ورزی سے بچنے کے لیے اجلاس 54 روز جاری رکھنا ضروری ہے۔ خط کے متن کے مطابق رواں سال 10 ماہ میں سینیٹ کے صرف 56 روز اجلاس منعقد کیے جا سکے ہیں۔
حکومت نے پارلیمنٹ کو تالا لگائے رکھا اور عوام کے اس نمائندہ سپریم ادارے کو غیر فعال کئے رکھا، جس کے بدترین اثرات پاکستان کے ہر شعبے میں ناکامی کی صورت میں برآمد ہوئے۔ مہنگائی کی شرح 19 فیصد تک پہنچ گئی، آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن سے بننے والے بجٹ اور منی بجٹس سے عوام کو میسر تمام ریلیف اور سبسڈی ختم کر دی گئی۔ اسی لاکھ سے زائد پاکستانی غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں، اس سب کے باوجود آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے لیے مسلسل دباؤ ہے اور اس کے سامنے حکومت نے سرتسلم خم کر رکھا ہے۔ ملک میں صنعتیں بند ہو رہی ہیں، بیس لاکھ لوگ بیروزگار ہوچکے ہیں۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی نے ملک بھر میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے، جنوری سے گیس کی قیمت میں مزید ڈھائی سو فیصد اضافے کا بم گرنے جا رہا ہے، اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافے کے سبب ہونے والی مہنگائی سے غریب اور متوسط طبقے کا سانس لینا مشکل ہوچکا ہے۔
زرعی اجزاء، کھاد کی قیمتوں میں اضافے نے کسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، صوبوں کے وسائل روک کر وفاقیت کو کمزور کیا جارہا ہے، ادویات کی قیمتوں میں غیرمعمولی اضافہ اورہسپتالوں میں دی جانے والی مفت ادویات کی سہولت ختم کردی گئی ہے۔ یہ سب پارلیمنٹ کے غیر فعال اور عوام کی نمائندہ حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔
پاکستان کی سفارتی محاذ پر ناکامی کی بڑی وجہ بھی پارلیمنٹ کو خارجہ پالیسی کے لئے استعمال میں نہ لانا ہے۔ عمران خان نے اپنے دورہ امریکہ سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں طے پانے والے معاملات، کوالالمپور کانفرنس میں پاکستان کے شرکت نہ کرنے کے حوالے سے سعودی عرب کی کیا ہدایات تھیں؟
ایسے اور بہت سے اہم ترین خارجہ امور کے معاملات پارلیمنٹ میں نہیں لائے گے، اور قوم کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ خارجہ امور کے معاملات پارلیمنٹ میں نہ لانے سے پاکستان کو سفارتی سطح پر سخت نقصان ہو رہا ہے۔ اس سے پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر تاریخی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ پارلیمنٹ کو فعال کیا جائے، بدقسمتی سے موجودہ سلیکیٹیڈ حکومت میں نہ سنجیدگی نظر آ رہی ہے، اور نہ ہی ویژن۔ اس سال پارلیمنٹ کو فعال ادارہ بنانے کے لئے ضروری ہے کہ عوام کی حقیقی نمائندگی موجود ہو، فریش انتخابات کے زریعے عوامی مینڈیٹ لیا جائے۔ یہی ایک صورت دکھائی دیتی ہے، اس سال میں پارلیمنٹ کے موثر اور فعال ہونے کی۔