جب سلیم ملک زخمی ہاتھ پر پلاسٹر چڑھا کر بیٹنگ کرنے آئے

جب سلیم ملک زخمی ہاتھ پر پلاسٹر چڑھا کر بیٹنگ کرنے آئے

سب کی نگاہیں ڈریسنگ روم کی جانب لگی ہوئی تھیں، انتظار ہورہا تھا پاکستانی کھلاڑی کا، آؤٹ ہونے والے نویں کھلاڑی توصیف احمد تھوڑی دیر کے لیے  پچ پر رکے۔ پاکستانی ٹیم کی دوسر ی اننگ میں سبقت 207 رنز ہوچکی تھی۔جو ویسٹ انڈیز جیسی مضبوط بیٹنگ لائن کے سامنے معمولی سا اسکور ہی لگ رہا تھا۔ وہی خطرناک اور خوف ناک ویسٹ انڈیز ٹیم جو کالی آندھی کا روپ دھا کر ہر ایک کو روند ڈالتی تھی۔ جس میں گورڈن گرینج، ڈیسمنڈ ہینز، رچی رچرڈ سن، لیری گومز، راجر ہارپر، ڈوجون اور سب سے بڑھ کر کپتان ویوین رچرڈز شامل تھے۔جن کے سامنے دنیا کا بہترین بالنگ اور بیٹنگ اٹیک بھی بے بس اور لاچار نظر آتا۔ اب اس قدر تگڑی ٹیم کے مقابلے میں پاکستان کی پہلی اننگ  159 پر ڈھیر ہوچکی تھی۔



 کریز پر ناٹ آؤٹ بلے باز وسیم اکرم اور ویسٹ انڈین کھلاڑی بھی ڈریسنگ روم کی راہ تک رہے تھے۔ ذہن میں سوال یہی گردش کررہا تھا کہ کیا سلیم ملک بیٹنگ کرنے آئیں گے؟۔خاص کر ایسے میں جب پہلی اننگ میں سلیم ملک  کے بائیں ہاتھ پر  میلکم مارشل کی برق رفتار گیند ایسی لگی کہ وہ 25  رنز بنا کر مزید بیٹنگ کے قابل نہیں رہے۔چند گھنٹوں بعد  کیے گئے ایکسرے سے پتا چلا کہ ان کی کلائی پر فریکچر آیا ہے اور ایسا پلاسٹر چڑھا کہ وہ بیٹنگ ہی نہ کرسکے۔


ذکر ہورہا ہے اکتوبر  1986 میں  ویسٹ انڈیز کے دورہ پاکستان کا، جب عمران خان پاکستانی ٹیم کی قیادت کررہے تھے۔ دونوں ٹیموں کے درمیان پہلا ٹیسٹ اقبال اسٹیڈیم فیصل آباد میں چوتھے دن کا کھیل کھیلا جارہا تھا۔فیلڈ ایمپائر خضر حیات اور محمد اسلم کے پاس ویسٹ انڈین کھلاڑیوں کا ہجوم تھا۔ جو ان سے یہی کہنا چاہ رہے تھے کہ جب سلیم ملک نہیں آرہے تو اننگ کو ختم کیا جائے تاکہ ان کی ٹیم بیٹنگ کی تیاری کرے اور ہدف کا تعاقب کرے۔ اسی دوران تماشائیوں کا شور بلند ہونا شروع ہوگیا۔ وسیم اکرم اور توصیف احمد جو ایمپائرز اور ویسٹ انڈین ٹیم کی اس گفتگو میں خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے۔ انہوں نے پلٹ کر دیکھا تو سلیم ملک ڈریسنگ روم کی سیڑھیاں اتر رہے تھے۔ انتہائی مشکل میں  تکلیف کے ساتھ ہاتھوں میں گلاوز چڑھا نے کی کوشش میں تھے  اور دھیرے دھیرے میدان کی جانب بڑھ رہے تھے۔


  وسیم اکرم کے چہرے پر جیسے اطمینان اور سکون کی لہر دوڑ گئی۔ ٹی وی کمنٹیٹر حسن جلیل بھی سلیم ملک کی اس ہمت پر داد دے رہے تھے،  جن کے بائیں ہاتھ پر پلاسٹر چڑھا تھا لیکن اس کے باوجود وہ بیٹنگ کے لیے اس لیے پچ کی جانب بڑھ رہے تھے کہ ٹیم کا مجموعہ کچھ اور بہتر ہوجائے۔مہمان کھلاڑی بھی ہکا بکا تھے لیکن انہیں اس بات کا یقین تھا کہ بھلا ایک ہاتھ سے کہاں اور کتنی دیر تک سلیم ملک مزاحمت کرپائیں گے۔ انہیں آؤٹ کرنا تو ویسٹ انڈین بالرز کا بائیں ہاتھ کا کام ہوگا۔



سلیم ملک کے سامنے نوجوان  فاسٹ بالر کورٹنی والش تھے۔ جو اپنی ٹیم کی جانب سے اس اننگ میں سب سے زیادہ 3 بلے بازوں کو ڈریسنگ رو م کا مہمان بنا چکے تھے۔ سلیم ملک کے سامنے پہلا یہ ہدف تھا کہ وہ والش کے ادھورے اوور کی دو گیندوں کو جیسے تیسے گزار دیں۔ مسئلہ یہ تھا کہ وہ کس طرح بیٹنگ کریں کیونکہ بائیں ہاتھ پر پلاسٹر چڑھا تھا اور ایک ہاتھ سے ہی کھیلناپڑتا۔ اس مرحلے پر سلیم ملک نے سوچا کہ وہ  رائٹ ہینڈر کے بجائے لیفٹ ہینڈر بن کر بیٹنگ کریں۔ والش نے دوڑنا شروع کیا۔ سلیم ملک گارڈ لے چکے تھے۔ والش کی پہلی ہی برق رفتار گیند کھیلنے کے بعد سلیم ملک کے ہاتھ میں زور سا جھٹکا سا آگیا۔ انہوں نے  بلا  دور پھینکا اور تکلیف  اور درد سے کراہانے لگے۔


نان اسٹرائیکر پر کھڑے وسیم اکرم، سلیم ملک تک پہنچے۔ انہیں دلاسہ دیا جنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اب سیدھے ہاتھ سے ہی کھیلیں گے۔ والش کی اگلی گیند کو بھی انہوں نے بڑی مشکل اور صبر کے ساتھ کھیلا۔ سلیم ملک صرف ایک ہاتھ سے ہی کھیل رہے تھے۔ وہ بھی وہ جس پر پلاسٹر نہیں چڑھا ہوا تھا۔


اوور کا اختتام ہوا تو وسیم اکرم نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ جنہوں نے ڈٹ کر ویسٹ انڈین بالرز پر تابڑ توڑ  حملے کردیے۔ اسکور میں اضافے کے خاطر لمبے لمبے شارٹس مارنے لگے۔ کوشش ان کی یہی تھی کہ ہر صورت میں سلیم ملک کا ٹاکرا بالرز سے نہ ہو۔  بحالت مجبوری اگر سلیم ملک کو گیند یں کھیلنی بھی پڑیں تو انہوں نے کسی صورت اپنی وکٹ پلیٹ میں رکھ کر نہ دی۔ ادھر وسیم اکرم نے دو فلک شگاف چھکوں اور 4چوکوں کی مدد سے 66 رنز بنائے۔ یہ اُ س وقت تک وسیم اکرم کی پہلی نصف سنچری تھی۔ درحقیقت وسیم اکرم کی یہ اننگ ان کی دنیا کے بہترین آل راؤنڈر بننے کی پہلی سیڑھی ثابت ہوئی کیونکہ ویسٹ انڈیز کی پہلی اننگ میں وہ 6  ویسٹ انڈین کھلاڑی کو آؤٹ کرچکے تھے جبکہ انہوں نے سلیم ملک کے ساتھ مل کر آخری وکٹ کی شراکت میں قیمتی  32 رنز کا بھی اضافہ کیا۔ جن میں سلیم ملک کا حصہ صرف  3رنز کا رہااور انہوں نے کم و بیش 41منٹ پچ پر گزارتے ہوئے  14 گیندیں اسی زخمی حالت میں بڑی جرات مندی کے ساتھ کھیلیں بھی۔ وسیم اکرم جب آؤٹ ہوئے تو اسکوربورڈ بتارہا تھا کہ ویسٹ انڈیزکو جیت کے لیے 239رنز کا ہدف ملا ہے۔


ویسٹ انڈیز جب بیٹنگ کرنے آئی تو انہیں یہ لگا جیسے وہ کوئی ڈروانا خواب دیکھ رہے ہیں۔ عمران خان اور عبدالقادر کی جوڑی نے ویسٹ انڈین بیٹنگ لائن کے پرخچے اڑا کر رکھ دیے۔مہمان ٹیم کے شہرہ آفاق کھلاڑی ہینز اور ویوین رچرڈز کو تو کھاتہ کھولنے کا بھی موقع نہ ملا۔


 ویسٹ انڈین ٹیم کا ایسا جلوس نکلا کہ دن کے اختتام پر صرف 43  رنز تھے اور 9 مہمان کھلاڑی آؤٹ ہوچکے تھے۔ پاکستان کی جیت یقینی تھی  اور اگلے دن بس رسمی کارروائی ہی ہوئی کیونکہ دسویں وکٹ میلکم مارشل کو بھی عبدالقادر نے جلدہی چلتا کیا اور یوں پوری مہمان ٹیم صرف 53 رنز پر  ڈریسنگ روم میں آرام کررہی تھی۔ پاکستان نے پہلا ٹیسٹ 186 رنز سے جیت لیا ۔ عمران خان نے اگر 4 شکار کیے تو عبدالقادر کی کرشماتی چکمہ دیتی  بالنگ نے 6 ویسٹ انڈین بلے بازوں کی کہانی تمام کی۔ 53 رنز پر ڈھیر ہونے کے بعد ویسٹ انڈیز کا یہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں اُ س وقت تک سب سے کم تراسکور تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سے پہلے 76 رنز پر پوری ٹیم کے آؤٹ ہونے کا ریکارڈ ویسٹ انڈیز نے پاکستان کے خلاف ہی ڈھاکہ میں 1958-59 میں بنایا تھا۔ میچ  میں بہترین آل راؤنڈر کارکردگی پر وسیم اکرم کو مین آف دی میچ کا اعزاز ملا۔  ویسٹ انڈین کے اس کم تر اسکور پر آؤٹ ہونے کو دنیا بھر کے اخبارات نے نمایاں جگہ دی، یہ اور بات ہے کہ اگلے ہی لاہور ٹیسٹ میں اس کا بدلہ مہمان ٹیم نے  پاکستان سے ایک اننگ اور 10رنز سے شکست دے کر لے لیا۔اس ٹیسٹ کی  دوسری اننگ میں ویسٹ انڈین فاسٹ بالرز نے ایسی تباہ کن بالنگ کرائی کہ پاکستانی ٹیم بھی صرف 77رنز پر ہمت چھوڑ بیٹھی۔ جبکہ اگلا کراچی ٹیسٹ ڈرا ہوا۔



جیت اورسپر کلاس ویسٹ انڈیز جیسی بڑی ٹیم کو معمولی سے  اسکور پر آؤٹ کرنے کا چرچا خاصے عرصے تک رہا۔ ویسٹ انڈیز جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف سیریز برابر کرنے کے خمار میں بیشترتجزیہ کار کی نگاہوں سے سلیم ملک کی بہادرانہ اننگ  اوجھل ہوگئی۔ جو پہلے ٹیسٹ کے بعد ہی اس سیریز سے زخمی ہونے کی بنا پر آؤٹ ہوگئے تھے ۔یہ بات  بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ ہاتھوں میں پلاسٹر لگا کر دلیری سے  وطن  اور ٹیم کے لیے بیٹنگ کرنے والے سلیم ملک نوے کی دہائی میں میچ فکسنگ کے کئی الزاموں کی زد میں آکر اپنے دامن کو داغ دار کرابیٹھے اور تاحیات پابندی کا زخم بھی انہیں سہنا پڑ گیا۔