سرینا عیسیٰ کی جانب سے حکام کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ میں 29 دسمبر 2021ء کو کراچی میں اپنے گھر کی صفائی ستھرائی کا کام کروا رہی تھی کہ اچانک لگ بھگ دوپہر 12 بجے دو افراد وہاں گھس آئے۔ دونوں افراد نے خود کو ملٹری انٹیلی جنس کا اہلکار ظاہر کیا۔ میں نے جب ان افراد سے اس طرح گھر میں گھسنے کا تحریری اجازت نامہ طلب کیا تو انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد ان سے جب میں نے شناختی کارڈ اور ادارے کا وزیٹنگ کارڈ مانگا تو وہ یہ چیزیں دکھانے سے بھی انکاری رہے۔ تاہم ان میں سے ایک شخص نے اپنا نام محمد امجد بتایا جبکہ دوسرے نے نام تک بتانا گوارا نہ کیا۔
سرینا عیسیٰ نے اپنے خط میں لکھا کہ ملٹری انٹیلی جنس کے ان دونوں افراد نے مجھ سے بلا اجازت سوالات پوچھنا شروع کر دیئے اور ایک دستاویز پر دستخط کروانے کی کوشش کی جس پر کسی ادارے کا نام نہیں لکھا ہوا تھا۔ اس موقع پر میری بیٹی بھی میرے ساتھ موجود تھی۔ ہم دونوں صورتحال سے گھبرا گئے۔ انہوں نے کہا کہ وہ دوبارہ آئیں گے اس لئے بہتر ہے کہ آپ معلومات فراہم کر دیں یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں اور میری بیٹی ابھی اس صورتحال سے نکلنے کی کوشش کر رہے تھے کہ اچانک دیگر دو افراد بھی میرے گھر میں گھس آئے اور بتایا کہ ان کا تعلق انٹیلی جنس ڈیپارٹمنٹ سے ہے اور انھیں وزارت داخلہ کی جانب سے بھیجا گیا ہے۔ انہوں نے بھی آتے ہی مجھے سے میرے خاندان کے بارے میں مختلف سوالات کرنا شروع کر دیے۔ میں نے ان افراد سے بھی شناخت طلب کی تو انہوں نے صاف انکار کر دیا۔ تاہم ان میں سے ایک شخص نے بتایا کہ اس کا نام انسپکٹر محمد ذیشان ہے۔ میں نے ان دونوں کے سامنے ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی سے بات کی اور تمام صورتحال سے وہاں موجود فسر کو آگاہ کیا تو اس نے کہا کہ ان افراد سے ہمارا تعلق نہیں ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے حکام کو لکھے گئے 3 صفحات پر مبنی اپنے خط میں مطالبہ کیا ہے کہ اس کی واقعے کی انکوائری کی جانی چاہیے۔