کشمیر: بھارتی سیکیورٹی فورسز کے کراس فائر میں شہید ہونے والے نانا کی سڑک پر پڑی لاش پر بیٹھے بلکتے ہوئے بچے کی تصاویر وائرل

12:11 PM, 1 Jul, 2020

نیا دور

یہ 2015 کی بات ہے جب دنیا کو شام کے ساحل پر اوندھے منہ پڑے ایک شیر خوار بچے ایلان کردی کی لاش نے جنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور وہ شام میں ہونے والی انسانیت سوز بربریت  کی ہولناکی کا استعارہ بن گیا۔ یہ بحث الگ کہ اس پر دنیا کا رد عمل شامیوں کی زندگیوں میں کیا بدلاؤ لایا۔ تاہم یہ درست ہے کہ انسان ہمیشہ سے ہی لیکن آج کی ما بعد جدیدیت کی دنیا میں حقائق اور نظریات کا ادراک اور اسکا استعمال تصاویری استعاروں سے کرتا ہے اور یہی ایلان کردی کے واقعہ میں بھی ہوا تھا۔ 


یہی بات کشمیر کے کیس میں بھی صادر آتی ہے۔ کبھی  آنسو گیس کے شیلوں کے سامنے کھڑے نہتے کشمیری اور بھارتی فورسز کی تصاویر، کبھی اپنے جوانوں کے جنازے پر بین ڈالتی کشمیری خواتین کی دلدوز تصاویر، پیلٹ گنز سے لہو لہان بینائی سے عاری آنکھوں کی درد اور پھر کبھی برہان وانی کی شہادت کی عکاسی ۔۔ یہ سب دنیا میں کشمیری جد وجہد آزادی کے سیاسی و غیر سیاسی تعارف ضرور رہے ہیں۔ تاہم اب کشمیر میں  پیدا ہونے والے انسانی المیئے کو ایک ایسی پہچان ملی ہے جو شاید پاکستان،بھارت، شہہ رگ، اٹوٹ انگ، دہشت گرد اور مجاہدین ،  مسلمان و ہندو کی بحث سمیت کسی بھی یک طرفہ سیاسی بیانیوں  سے بالا بالا  صرف انسانیت کی ترجمان ہے۔


دنیا نے بھارت کے زیر تسلط کشمیر  کے ضلع بارہ مولہ میں سوپور کے علاقے میں  سڑک کے کنارے پڑی ایک شخص کی خون میں لت پت لاش اورایک چھوٹے بچے کو اس کے سینے پر بیٹھے بری طرح سے بلکتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس تین سالہ بچے کا نام عیاد جہانگیر ہے اور خون میں لت پت اپنے نانا کی لاش پر بیٹھا ہیجانی کیفیت میں رو رہا تھا۔ یہ ویڈیومقامی صحافیوں کی جانب سے شئیر کی گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی۔ یہ صحافی جائے وقوعہ پر پہنچے تھے۔ 


بھارتی میڈیا کے مطابق تو بھارتی پیرا ملٹری سیکیورٹی فورس بی ایس ایف کے اہلکاروں اور عسکریت پسندوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں ایک راہ چلتا عام شہری مارا گیا، جبکہ ان کا تین سالہ نواسہ عیاد بچ گیا۔ 


 یہ واقعہ بدھ کی صبح قریب ساڑھے آٹھ بجے سوپور میں پیش آیا تھا۔  دی انڈیپینڈنٹ اردو نے مقامی صحافیوں کے حوالے سے لکھا کہ پولیس کے ایک اہلکار نے مذکورہ بچے، جس کے کپڑوں پر خون لگا ہوا تھا، کو اپنے سینے سے لگایا اور اس کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر پولیس کی ایک چھوٹی گاڑی میں ڈال کر محفوظ مقام پر منتقل کردیا۔'


سوشل میڈیا پر تنقید ہونے اور کارروائی کا مطالبہ ہونے پر اپنی ٹویٹ میں سوپور پولیس نے لکھا ہے کہ  سوشل میڈیا  پر (پولیس کے ہاتھوں) ایک عام شہری کو قتل کیئے جانے کی خبریں مکمل طور پر بے بنیادہیں اور حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ سوپور پولیس ان رپورٹس کو مسترد کرتی ہے اور غلط خبریں اور افواہیں پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔'


بھارتی صحافی برکھا دت نے ایک ری ٹویٹ کی جس میں بتایا گیا تھا کہ فائرنگ کے تبادلے میں ہلاک ہونے والے شہری کی شناخت سری نگر کے مضافاتی علاقے مصطفیٰ کالونی ایچ ایم ٹی کے رہنے والے بشیر احمد خان ولد غلام محمد خان کے نام سے ہوئی ہے۔


 دی انڈیپینڈنٹ اردو نے اس کے اہل خانہ کا انٹرویو جاری کیا ہے جس میں مذکورہ شہری کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ بشیر احمد عسکریت پسندوں کی نہیں بلکہ سکیورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے۔  اس میں ایک شخص جن کو انکا بیٹا بتایا گیا ہے بتا رہے ہیں کہ سیکیورٹی فورسز نے  بشیر احمد کو گاڑی سے نکال کر گولیاں ماریں۔ بشیر احمد تعمیراتی ٹھیکیداری کیا کرتے تھے۔


سوشل میڈیا پر 3 سالہ عیاد جہانگیر کی ایک اور ویڈیو بھی وائرل ہوئی ہے جس میں وہ بظاہر بھارتی سیکیورٹی فورس کی گاڑی میں بیٹھا ہے اور مسلسل رونے سے اسیں ہچکیاں لاحق ہیں۔ اسے بہلانے کے لئے عقب سے سیکورٹی اہلکار اسے بتا رہا ہے کہ اس کے لئے بسکٹ بھی ہیں اور چاکلیٹ بھی لے کر دیں گے۔ لیکن وہ جواب دیتا ہے کہ اسے باہر جانا ہے 


کشمیر میں جاری بربریت ایک جانب تو نسلوں کی نسلیں موت کے گھاٹ اتار رہی ہے تو دوسری جانب عیاد جیسے بچوں کو ایسے نفسیاتی گھاؤ دے رہی ہے جو تا عمر انکے ساتھ رہیں گے۔ کاش اسکی یہ تصاویر اور یہ واقعہ طاقت کے بیوپاریوں کے دلوں کو موم کر سکے۔


مزیدخبریں