امیرِ شہر کے ارمان ابھی کہاں نکلے
لوگ ابھی Covid-19 کی ہولناکیوں سے جانبر نہیں ہوئے تھے کہ بجٹ پاس ہونے سے پہلے ہی حکومت نے عوام پر پٹرول بمب گرا دیا۔ کچھ لوگ ششدر رہ گئے۔ ره گئے غریب عوام، تو وہ پہلے ہی غربت و مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ وہ تو تلملا کے رہ گئے۔
ہر شخص جانتا ہے کہ جب بھی اس حکومت سے تیل کی زیاده قیمتوں پر احتجاج کیا گيا تو عوام کو یہ کہہ کر دلاسہ دیا گیا کہ جب بھی عالمی مارکیٹ میں قيمتيں كم ہوں گی، اس کا فائدہ عوام کو ضرور دیا جائے گا۔ جب اپریل میں تیل کی قيمتيں عالمی منڈی میں کم ہوئیں اور اس حد تک کم ہوئیں کہ ایک بیرل تیل نکالنے پر جو خرچ آتا تھا، اُس قیمت پر بھی کوئی تیل خریدنے کے لئے تیار نہ تھا۔ اس ملک کے عوام نے سوچا کہ ان کی مراد بر آئی ہے۔ انھوں نے حکومت پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا کہ انھیں کب فائدہ ہوگا۔
حکومت نے دو مرتبہ تیل کی قيمتيں کم کیں اور مجموعی طور پر پنتالیس، سنتالیس روپے تک فی لیٹر پٹرول کی قیمت کم کرنے کا اعلان کر دیا۔ پٹرول نایاب اور غائب ہو گیا۔ جو بہت ’صالح کردار‘ مالک پٹرول پمپ تھا، اُس نے بھی پانچ سو روپے سے زیادہ پٹرول دینے سے انکار کر دیا۔ عوام ایک پٹرول پمپ سے دوسرے پٹرول پمپ تک دھکے کھانے پر مجبور ہوئے، عملی طور پر وہ رل گئے۔ جب زیادہ ہاہا کار مچی تو حکومت کے بزر جمہروں کو ایک انوکھی تركيب سوجھی: 25 روپے فی لٹر پٹرول کی قیمت بڑھا دی جائے تو پٹرول پمپ بھی کھل جائیں گے، عوام کو آسانی سے پٹرول میسر آنے لگے گا، اور دوسری طرف حکومت کے بھی وارے نیارے ہو جائیں گے۔ گویا ایک پنتھ دو کاج یا ایک تیر سے دو نشانے!
اخباری اطلاعات کے مطابق جب ایک لیٹر پٹرول بکتا ہے تو ہر سو روپے میں سے حکومت کو 47 روپے پٹرولیم ليوی، جی ایس ٹی اور ايكسپورٹ ڈیوٹی کی مد میں ملتے ہیں۔ صرف جولائی میں 75 ارب روپے حکومت کے خزانے میں جائیں گے اور مجوزه ٹارگٹ 450 ارب روپے سالانہ کا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو پٹرول، حکومت کے لئے سونے کی کان کی دریافت سے بھی بیش قیمت ہے۔
جو لوگ حکومتی ڈهول پیٹنے پر معمور ہیں، ان سے شکوه بے جا ہے۔ رہی حزب اختلاف تو وه بے دم اور نڈھال ہے۔ اخلاقی قوت سے عاری وہ پھیکے بیانات پر ہی اکتفا کررہی ہے۔ ایسے میں عوام جائیں تو کہاں جائیں؟
حالیہ پٹرول بحران نے حکومت کی رٹ کو کمزور کر دیا ہے۔ اس سے قبل چینی اور آٹے کا بحران پیدا ہوا۔ حکومت کی بے بسی سامنے آئی۔ یا تو حکومت مگر مچھوں پر ہاتھ ڈالنے کے لئے تیار نہیں ہوتی یا سرکس کے شیر کی طرح دہاڑتی ہے جس سے کوئی خوفزده ہی نہیں ہوتا۔ ہر طاقتور شخص من مانی کرتا ہے اور اپنی ہی شرائط پر کھیلنا چاہتا ہے۔ ایک اخباری اطلاع کے مطابق ملک میں 900 پٹرول پمپ ہیں۔ بعض اوقات ایک شخص ایک سے زیادہ پٹرول پمپ چلاتا ہے۔ کچھ پٹرول پمپ انھوں نے لیز پر لے رکھے ہیں۔ عملی طور پر چھ، سات سو افراد نے حکومت کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ یادش بخیر، پنجاب میں ایک قانون ذخيره اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف 1977 میں بنایا گیا تھا۔ جس کا پورا ٹائٹل یہ ہے: Price Control and Prevention of Profiteering and Holding Act, 1977۔
عوام پوچھتے ہیں کہ اس قانون کا تازیانہ کب برسے گا اور كب عوام کو افاقہ ہوگا۔ آخر عوام اور حکومت کب تک یرغمال بنے رہیں گے؟ اگر عمران خان کا شوق حکومت پورا ہو چکا ہو اور وه عوام کی آہ و بکا سے بچنا چاہتے ہوں تو نسخہ بہت آسان ہے۔ اگر خود سے نہیں کھیلا جا رہا تو کسی اور ٹیم کو کھیلنے کا موقعہ دیں۔ اے خدایا، رحم۔ تیرے گنهگار بندے، نیکوکاروں کی حکومت اور انصاف کے نام پر ووٹ مانگنے والوں سے تو عاجز آ چکے۔ نسخہ کیمیا دُہرائے دیتے ہیں: قومی اسمبلی اور اپنے ماتحت دو صوبائی اسمبلیوں کو تحليل کر ديں اور اپنا بوریا بستر سنبهال کر الله الله کریں۔