بظاہر بھارت ہندوؤں، جین مت بدھ مت کے ماننے والوں کا بہت بڑا ملک تھا موجودہ بنگلہ دیش، پاکستان، سری لنکا سب اس کے حصے تھے نیپال بھی بھارت کا حصہ تصور کیا جاتا تھا مگر محمد بن قاسم کے آنے کے بعد جب ایک نیا مذہب اسلام وجود میں آیا اور مسلمانوں نے ہندوستان کے تخت پر بزور شمشیر قبضہ کر لیا جو پورے ہزار سال رہا۔ بعد ازاں برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے ختم کر کے براہ راست تاج برطانیہ کے ماتحت کر دیا ،جب تک مسلمانوں کے خاندان لودھی غلاماں مغل برصغیر پر حکومت کرتے رہے ان کو مرہٹوں گورکھوں اور سکھوں سے شدید مزاحمت کا سامنا رہا اور یوں ہندو مسلم تضاد کی خلیج گہری سے گہری ہوتی گئی۔ تقسم ہند کو ہندوؤں نے دل سے اس لئے قبول نہیں کیا کیونکہ پاکستان اور بنگلادیش کا قیام انہی علاقوں پر عمل میں آیا تھا جو کبھی بھارت کا حصہ تھے تاہم تقسیم ہند میں پنڈت جواہر لال نہرو اور سردار پٹیل کا کردار بھی اہم ہے۔ اسی تضادات کو لے کر 73 سال سے دونوں ممالک 4 جنگیں کر چکے ہیں اور ابھی تک جنگی جنون میں مبتلا ہیں۔
حال ہی میں دو واقعات ہوئے پہلے لاھور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں حافظ سعید کے گھر کے سامنے بم دھماکہ ہوا اور پھر چند روز بعد بھارت میں پلوامہ کے مقام پر بھارتی فضائیہ کے ائیر بیس پر ڈرون حملہ ہوا جس سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تاہم جوہر ٹاؤن لاہور کے بم دھماکہ میں تین افراد ہلاک ہوئے ،ان دونوں واقعات کے بعد بھارتی اور پاکستانی ذرائع ابلاغ جس میں برقی اور اشاعتی دونوں شامل ہیں کا کردار ویسا ہی رہا جو پچھلے 73 سالوں سے ہے۔ دونوں اطراف سے ایک دوسرے پر الزامات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ابھی تک چل رہا ہے۔
پچھلے ایک برس سے ایک وبا کرونا وائرس کی صورت میں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور اب تک لاکھوں انسانوں کی جان لے چکی ہے، آثار بتاتے ہیں کہ اس سال کے آخر تک امیر ممالک اور اگلے سال کے وسط تک غریب ممالک ویکسین کے ذریعے اس وبا پر قابو پا لیں گے مگر اس کے لئے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے۔ وبا نے بھارت کو شدید متاثر کیا اور امریکہ اور برازیل کے بعد سب سے زیادہ ہلاکتیں بھارت میں ہوئیں، بھارت میں آکسیجن کی شیدید قلت ہوئی، پاکستان میں ونٹی لیٹر بہت کم تھے۔ اب دونوں ممالک بلکہ پوری دنیا میں ویکسین کا سلسلہ چل رہا ہے، کیا اچھا ہوتا کہ دونوں ممالک ایک باہمی معاہدے کے تحت اپنا دفاعی بجٹ کم کر کے صحت کے بجٹ میں اضافہ کر دیتے مگر اسیا نہ ہوا وبا نے بھی دونوں ممالک کے درمیان نفرت کی آندھی کو تھمنے نہ دیا۔
دونوں اطراف کی ہیت مقتدرہ اور سیاسی قیادت پھر دور اندیشی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہے اور بات چیت تک نہیں ہو رہی، ایک دوسرے کے شہریوں کو ویزے کے مسائل کا بھی سامنا ہے اور ہم نے ایک ہی ضد پکڑی ہوئی ہے کہ بھارت کشمیر کو 5 اگست والے سٹیسں پر واپس لے کر جائے جو کہ اب ممکن نہیں ہے۔
بھارت نے کشمیر کی ہیت ہی بدل دی ہے پہلے لداخ جموں اور وادی کشمیر کی ریاست تھے اب لداخ براہ راست دہلی کی زیر نگرانی چلا گیا ہے اور اب کسشمیر کشمیر وادی اور جموں تک محدود ہے۔ حال ہی میں بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی نے کشمیر کی 14 سیاسی جماعتوں کے قائدین کو دہلی بلایا ان نے کشمیر میں ہونے والے الیکشن اور نئی حلقہ بندیاں پر بات چیت کی، پاکستان کو بھی اپنی بھارتی پالیسی پر نظر ثانی کر کے بات چیت کے عمل کو آگے بڑھانے میں قدم اٹھانا چاہیے، تجارت اور تفافتی معاملات کو پھر شروع کرنا چاہیے جب کہ کشمیر کی سیاسی قیادت جس میں دو سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی بھارتی پردھان منتری نریندر مودی سے بات چیت کرنے چلے گئے ہیں تو اب ہمیں بھی اپنی ضد چھوڑ دینی چاہیے اور بات چیت کر کے اس جنگی جنون کو ختم کر کے دونوں ممالک کو امن کا نشان بنانا چاہیے اسی میں آنے والی نسلوں کی بقا ہے۔