سوشل میڈیا انسانیت کی بقا خطرے میں ڈال سکتا ہے: تحقیق

02:57 PM, 1 Jul, 2021

نیا دور
مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی سائنسدانوں کے ایک گروپ نے اپنے مشترکہ تحقیقی مقالے میں خبردار کیا ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر انسانوں کے اجتماعی طرزِ عمل اور سوچ میں تبدیلی کو سمجھا نہ گیا تو یہ ٹیکنالوجی پوری انسانیت اور انسانی تہذیب کو تباہ کرکے رکھ دے گی۔

معروف آن لائن تحقیقی جریدے ’’پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز‘‘ (PNAS) کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے 17 مصنفین مختلف سائنسی موضوعات کے ماہر ہیں جن کا تعلق حیاتیات، نفسیات، اعصابیات اور ماحولیات سمیت کئی شعبوں سے ہے۔

ماہرین نے اپنے تمام نکات کو مجموعی طور پر ’’بحرانی علم‘‘ (کرائسس ڈسپلن) کا عنوان دیتے ہوئے زور دیا ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی بدولت انسانوں کے باہمی رابطے نہ صرف بہت بڑھ چکے ہیں بلکہ ان کی پیچیدگی بھی ماضی میں انسانی سماج کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوچکی ہے۔
لکھا گیا ہے کہ ہمیں خدشہ ہے کہ اگر وسیع تر انسانی پیمانے پر ٹیکنالوجی کے اثرات نہ سمجھے گئے تو ہم آنے والے برسوں میں کسی غیر ارادی اور غیر متوقع تباہی کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔

بحرانی علم (crisis discipline) کے تحت کسی ایک شعبے میں درپیش مسئلہ فوری طور پر حل کرنے کےلیے مختلف شعبہ جات سے وابستہ ماہرین مشترکہ طور پر کام کرتے ہیں، کیونکہ وہ مسئلہ بیک وقت کئی شعبوں کو متاثر کررہا ہوتا ہے۔
یہ اصطلاح سن 2000 میں حیاتیاتی تحفظ کے ماہرین نے پیچیدہ ماحولیاتی مسائل کا ہنگامی اور مؤثر حل ڈھونڈنے کی غرض سے درکار وسیع البنیاد تحقیقی تعاون کےلیے وضع کی تھی۔ اس مقالے میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ آج ہم انسانوں کے اجتماعی طرزِ عمل پر ٹیکنالوجی کے اثرات سمجھنے سے قاصر ہیں جس کا نتیجہ نہ صرف جمہوری بلکہ سائنسی ترقی میں رکاوٹوں کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے۔

کورونا وائرس اور سوشل میڈیا

انہوں نے کووِڈ 19 کی عالمی وبا میں غلط اور بے بنیاد خبروں کے وسیع تر پھیلاؤ، اور اس پھیلاؤ سے برآمد ہونے والے سنگین نتائج کو اس امر کی تازہ ترین مثال کے طور پر پیش کیا ہے۔ علاوہ ازیں، انتخابات میں سوشل میڈیا سے پھیلائی جانے والی افواہوں کے اثرات بھی اسی بڑے اور پیچیدہ مسئلے کا ایک حصہ ہیں۔ مستقبل میں بھی ہم جدید ٹیکنالوجی سے پیدا ہونے والے ایسے ہی غیر ارادی، غیر متوقع اور منفی نتائج کا بڑے پیمانے پر سامنا کرسکتے ہیں جن میں انتخابی دھاندلی کے ساتھ ساتھ بیماری، پرتشدد انتہاء پسندی، خشک سالی، نسل پرستی اور جنگی حالات تک شامل ہوسکتے ہیں واضح رہے کہ اپنے مقالے میں ان سائنسدانوں نے سوشل میڈیا کو مکمل طور پر غلط قرار نہیں دیا بلکہ مختلف مواقع پر سوشل میڈیا کے کردار کو سراہا بھی ہے۔ مثلاً یہ کہ معاشرے کے وہ طبقات جو اقلیت میں ہیں یا سماج میں ان کی بات سنی نہیں جاتی، آج وہ بھی سوشل میڈیا کی بدولت اپنے مسائل سے ایک وسیع حلقے کو آگاہ کرسکتے ہیں، جیسے کہ روہنگیا میں مسلمانوں کی نسل کشی یا امریکی کانگریس کی عمارت پر سفید فام نسل پرستوں کا حملہ وغیرہ جبکہ مذہبی اقلیتوں کے کیس بھی اس میں شامل کیئے گئے ہیں۔
مزیدخبریں