تفصیلات کے مطابق ڈان نیوز کو حالیہ انٹرویو میں دیے گئے اپنے ریمارکس کی وضاحت کرتے ہوئے ریاض پیرزادہ نے کہا کہ ان کا یہ کہنا تھا کہ لاپتا افراد کے معاملے کو ان کی وزارت اکیلے حل نہیں کر سکتی کیونکہ یہ تفتیشی اتھارٹی نہیں ہے۔
وزارت کی جانب سے جاری بیان میں مزید کہا گیا کہ لاپتہ افراد سے متعلق بل متعلقہ قائمہ کمیٹیوں میں زیر غور ہے تاہم یہ بات قابل ذکر ہے کہ وزارت کے سیکریٹری پہلے ہی کسی بھی پینل میں بل کے زیر بحث بل ہونے کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کر چکے ہیں۔
ایک حالیہ میٹنگ کے دوران سیکریٹری نے اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ ان کی وزارت ایسے کسی بھی بل کے بارے میں لاعلم ہے بلکہ وزارت داخلہ اور پارلیمانی امور سے کہا گیا ہے کہ وہ اس معاملے کا پتا لگائیں۔
ڈان نیوز کو دیا گیا ریاض پیرزادہ کا انٹرویو متنازع ریمارکس پر مشتمل ہے جس میں وزیر نے واضح طور پر کہا تھا کہ کچھ لاپتا افراد جادھو یا پڑوسی ممالک سے منسلک تھے۔
پیرزادہ نے کہا کہ وزارت انسانی حقوق نے لاپتہ افراد کے معاملے کو حل کرنے کے لیے ایک بل اور تجاویز پارلیمنٹ کو بھجوائی تھیں اور اب یہ پارلیمانی کمیٹیوں میں زیر بحث آنے کے باوجود وزارت داخلہ کے پاس ہے، وزیر نے امید ظاہر کی کہ کمیٹیاں جلد ہی اپنی بات چیت مکمل کر لیں گی اور اس سلسلے میں کسی غیر ملکی ایجنڈے پر عمل نہیں کیا جائے گا۔
اس کے علاوہ، سابق وزیر انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے ڈان نیوز کو بتایا کہ انہوں نے لاپتا افراد کے بل کا معاملہ آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے متعلقہ حکام کے ساتھ اٹھایا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ مجھے انہیں اس بات پر قائل کرنے میں تین سال لگے کہ لوگوں کو اٹھانے کا اس طرح کا عمل ختم ہونی چاہیے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ کچھ 'غیر مرئی' قوتوں نے بل میں بعض ترامیم کو شامل کرنے کی کوشش کی اور بعد میں قانون سازی کے مسودے کو عملی شکل نہیں دی جا سکی۔
رانا ثنا اللہ کی طرف سے حال ہی میں دیے گئے ایک بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ وزیر داخلہ نے اعتراف کیا ہے کہ کچھ ادارے کچھ لوگوں کو ’غائب‘ کرنے پر مجبور ہیں، انہوں نے مطالبہ کیا کہ وزارت داخلہ اور پارلیمانی امور کے اعلیٰ حکام سے لاپتا افراد کے بل کے بارے میں پوچھ گچھ کی جائے