پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں سمیت صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس آرڈیننس کے ذریعے میڈیا پر ایک اور مارشل لا لگایا جائے گا اور اظہار رائے پر مزید قدعنیں لگائی جائیں گی۔
اس قانون سازی کے بعد صدر پاکستان وفاقی حکومت سے مشاورت کے بعد 12 ممبران کا چناؤ کریں گے جس کا چئیرمین یا چیئرپرسن بیوروکریسی کے انفارمیشن گروپ کے گریڈ 21 یا 22 کا ملازم ہوگا۔
آرڈیننس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس ایک آزاد، خودمختار، شفاف اور موثر ادارہ ہوگا جو پرنٹ، الیکٹرانک، ڈیجیٹل، فلم اور ویب ٹی وی کو ریگولیٹ کریگا۔
اس آرڈیننس کے تحت تمام میڈیا نیٹ ورکس کو قانونی طور پر اپنے امور چلانے کے لئے اس ادارے سے لائسنس لینے کا پابند بنایا گیا ہے۔ میڈیا ادارے نہ صرف اس ادارے سے لائسنس لینے کے پابند ہوں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اداروں کے خلاف شکایات بھی سنی جائیں گی اور میڈیا ٹریبونلز کے ذریعے جرمانے اور سزائیں بھی سنائی جائیں گی۔
حکومت اس ادارے کو اپنی پالیسی کے حوالے سے مختلف قسم کی ہدایات فراہم کریگی جس کے بعد یہ ادارہ میڈیا اداروں پر وہ ہدایات لاگو کرنے کی پابند ہوگا۔
ڈرافٹ کے مطابق کوئی بھی میڈیا ادارہ پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے اجازت لئے بغیر کسی بین الاقوامی براڈکاسٹر کے ساتھ اپنا ائیر ٹائم بیچنے یا اپنا ائیر ٹائم مہیا کرنے کے لئے معاہدہ نہیں کرے گا۔ میڈیا کے ادارے ایسا مواد نشر نہیں کریں گے جس سے ریاست کے سربراہ، مسلح افواج، عدلیہ اور قانون ساز اداروں کی تضحیک کی جائے۔
ڈرافٹ کے مطابق قوانین کی پاسداری نہ کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہوگی جس کے مطابق 25 ملین روپے جرمانہ اور تین سال قید کی سزا بھی ہوسکتی ہے۔
حکومت کے وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ایک بین الاقوامی ادارے بی بی سی کو حال ہی میں انٹرویو دیتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ پاکستان میں میڈیا پر کوئی دباؤ نہیں اور ملک میں میڈیا مکمل طور پر آزاد ہے۔
پاکستان میں میڈیا پر کام کرنے والے ادارے فریڈم نیٹ ورک نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ آرڈیننس ملک میں اظہار رائے کی آزادیوں کو مزید سلب کریگا جو اس حکومت کے آنے کے بعد حملوں کی زد میں ہے۔
ڈان اخبار سے وابستہ سیاسی تجزیہ کار ہما یوسف سمجھتی ہیں کہ اگر حکومت اس قانون سازی میں کامیاب ہوگئی تو یہ ملک میں اظہار رائے کی آزادی اور معلومات تک رسائی کے لئے ایک دھچکا ہوگا۔ ہما یوسف سمجھتی ہیں کہ اس قانون سازی کے بعد میڈیا اداروں کا انحصار نہ صرف حکومت پر ہوگا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ حکومت کا بیانیہ لیکر آگے جائے گی اور ان کی آزادیاں سلب ہوجائیں گی ۔ ان قوانین پر اگر میڈیا ادارے عمل نہیں کرینگے تو نہ صرف ان کا لائسنس معطل کیا جائے گا بلکہ اس کے ساتھ جرمانوں اور سزاؤں کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔
ملک میں صحافیوں کے تحفظ اور میڈیا قانون سازی پر نظر رکھنے والے وکیل اور ایکٹویسٹ آفتاب عالم نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ حکومت تو بظاہر یہ موقف اپنا رہی ہے کہ وہ نئی ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرکے ڈیجیٹل میڈیا مارکیٹ سامنے لار ہی ہے مگر اس کے ارادے میڈیا پر مارشل لا لگانے کے ہیں۔ انہوں نے کہا جب بھی کسی ادارے کے حوالے سے قانون سازی کرنی ہو تو ان اداروں سے مشاورت اور نمائندگی ضروری ہوتی ہے مگر جو ادارہ بنایا جارہا ہے وہ مکمل بیوروکریسی کے کنٹرول میں ہوگا اور وہ حکومت کے احکامات کو نافذ کرنے کے لئے ہر حد تک جائیگا۔ آفتاب عالم سمجھتے ہیں کہ حکومت نے یہ موقف اپنایا تھا کہ وہ اداروں کو آزاد اور خودمختار بنائے گی مگر اس آرڈیننس میں نہ صرف اس ادارے کو بیوروکریسی کے زیر عتاب لایا گیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کے کنٹرول میں بھی لایا گیا ہے تو یہ ایک حقیقت ہے کہ وہی ہوگا جو حکومت چاہے گی اور یہ میڈیا اور اظہار رائے پر ایک مارشل لا کے مترادف ہے۔
ہما یوسف کے مطابق ان قوانین سے نہ صرف پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو لگام دیا جائے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل میڈیا کو بھی زیر عتاب لایا جائے گا۔ ہما یوسف کے مطابق کوئی بھی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ ملک میں ایک آزاد میڈیا سرگرم ہو جو نہ صرف ان پر تنقید کریں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور یہی وہ قانون سازی ہے جس سے نہ صرف میڈیا اداروں کو لگام دیا جائے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی کٹہرے میں لایا جائے گا۔
آفتاب عالم نے مزید کہا کہ آئین پاکستان ہر شہری کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ کسی بھی ہائی کورٹ میں کسی بھی فیصلے کے خلاف اپیل کریں مگر اس آرڈیننس میں شہریوں سے یہ آئینی حق بھی چھین لیا گیا ہے جبکہ ٹریبونلز کے فیصلے کو صرف اور صرف سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے۔ اس آرڈیننس کے نکات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آرڈیننس سے نہ صرف اظہار رائے کی آزادی کو سلب کیا جائے گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اداروں کو حکومت کے زیر کنٹرول لایا جائے گا جو کے ملک میں سنسرشپ لگانے کی ایک اور بدترین کوشش ہے۔