دنیا کو اسلاموفوبیا کے بارے میں بینظیر بھٹو نے بتایا، آج کریڈٹ کوئی اور لے رہا ہے

11:46 AM, 1 Jun, 2022

رب نواز بلوچ
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری، امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، سوئٹزرلینڈ اور چین کے دوروں کے بعد آج کل تین روزہ سرکاری دورے پر ترکی میں ہیں۔

اس سے قبل اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز نیویارک میں ایک عالمی سمٹ میں جب ترک وزیر خارجہ میولود چاؤش اولو اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری سے ملے تو انہوں نے کہا کہ " ترکی کا ہر فرد جانتا ہے کہ آپ کے نانا اور آپ کی والدہ کے ترکی کے ساتھ تعلقات کس نوعیت کے تھے۔ ترک عوام دہائیوں سے آپ کے خاندان کو عزت کے نگاہ سے دیکھتا ہے"۔

دو برادر اسلامی ممالک پاکستان اور ترکی کے دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ ترکی اور پاکستان نے دنیا بھر کو اسلاموفوبیا بارے بہت سال پہلے ناصرف آگاہ کیا بلکہ اس کے لئے عملی اقدامات اٹھائے گئے۔ مگر افسوس آج کل اسلاموفوبیا بارے صرف باتیں اور پاپولر نعرے رہ گئے ہیں۔ حقیقت میں اسلاموفوبیا بارے آج سے تقریباَ تین دہائیاں قبل اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے دنیا کو بتایا تھا۔ 1994ء میں جب بوسنیا ہرزوگوینا میں جنگ جاری تھی تو اس وقت کی پاکستان کی وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے یہ اعلان کرکے دنیا بھر کے سفارتی حلقوں میں بھونچال پیدا کیا کہ وہ سراجیوو جائیں گی۔

جی ہاں بات ہو رہی ہے فروری 1994ء کی جب بوسنیا کے مسلمانوں پر سربیا کی فوجیں مظالم ڈھا رہی تھیں تو مسلم امہ کی پہلی خاتون وزیراعظم بینظیر بھٹو نے ترکی کی پہلی خاتون وزیراعظم تانسو چیلر کو اپنا شریک سفر بنایا۔ فروری 1994ء میں مسلم امہ کی دو خاتون وزرائےاعظم، پاکستان اور اسلامی دنیا کی پہلی خاتون بینظیر بھٹو اور ترکی کی بھی پہلی خاتون وزیراعظم تانسو چیلر، نے بوسنیا کا دورہ کرکے دنیا کو حیران کر دیا تھا اور بوسنیا کے مسلمانوں کے ڈھانے جانے والے مظالم پر عالمی توجہ مبذول کرائی۔ بینظیر بھٹو نے سربین آرٹلری کی گولہ باری کی گونج میں بلٹ پروف جیکٹ پہن کر ہسپتال میں زخمی بچوں کی عیادت کی اور ان میں مٹھائی تقسیم کی۔

دراصل بوسنیا میں تین سال سے جنگ جاری تھی اور سابق یوگوسلاویہ کی نسل پرست سرب افواج نے نہتے ایک لاکھ بے گناہ مسلمان شہید کر چکی تھیں۔ لاکھوں مسلمان جان بچانے کیلئے ہجرت کر رہے تھے۔ ہزاروں مسلمان خواتین کی بے حرمتی کی گئی تھی اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو عقوبت خانوں میں اذیتیں دی جا رہی تھیں اور اکثر مقامات پر یہ ظلم عالمی امن فوج کی موجودگی میں ہو رہا تھا۔

نومولود مسلم اکثریتی ملک کے دارالحکومت سراجیوو کے محاصرے کو دو سال ہو چکے تھے اور زندگی پر موت کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ ٹینکوں، بارود اور گولیوں کی گھن گرج میں اسلامی دنیا کی دو بہادر خواتین نے خالی ہاتھ بوسنیا کے دارالحکومت سراجیوو جا کر دنیا کو بتایا کہ قتل ہونے والے بیگناہ مسلمان ہیں۔ بیگناہ خواتین کی بے حرمتی ہو رہی ہے۔ بچے یتیم ہو رہے ہیں۔ یہ بھی انسان اور مسلمان ہیں۔ اس وقت دنیا کی آنکھیں کھلیں، دنیا کو پہلی بار مسلم کشی اور اسلاموفبیا بارے آگاہی حاصل ہوئی۔



( بینظیر بھٹو اور تانسو چیلر بوسنیا کے دارالحکومت سراجیوو میں)

محترمہ بینظیر بھٹو کے دورہ بوسنیا کے بعد عالمی میڈیا نے بھی سواجیوو میں جاری جنگ پر خبریں لگائیں، اداریے لکھے اس وقت مغربی میڈیا نے دونوں مسلم خاتون وزرائے اعظم کے دورے کو بے مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی جانوں کی فکر کئے بغیر ایک اہم مسئلے کو عالمی سطح پر اُجاگر کیا۔

امریکی اخبار نے لکھا کہ خطروں سے گھرے بوسنیا کے دارالحکومت سراجیوو میں دو نہتی خواتین صدارتی محل سے سیدھی بچوں کے ہسپتال پہنچیں۔ جنگ میں زخمی بچوں کی عیادت کی۔ اس موقع پر ترک وزیراعظم تانسو چیلر نے کہا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے دنیا بوسنیا کے عوام کو بھول گئی ہے جبکہ بینظیر بھٹو نے نیٹو اور اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا تھا کہ سویلین آبادی کو گھرے ہوئے باغیوں پر بمباری کے بارے میں سنجیدگی سے غور کیا جائے۔

محترمہ بینظیر بھٹو کے دورہ بوسنیا کے بعد دنیا کو اب یہ خطرہ درپیش ہو گیا کہ پاکستان اور ترکی دو بڑے مسلم ملک ہیں اگر ان کی وزرائے اعظم کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا تو پوری دنیا کسی عالمی جنگ کی طرف جا سکتی ہے۔ اس خطرے کا احساس ہونے کے بعد امریکا، یورپ اور اقوام متحدہ کی جانب سے جارح سربوں کو سخت پیغام دیا گیا اور انہیں کسی متوقع جارحیت کے خطرناک نتائج سے آگاہ کر دیا گیا کہ وہ کسی بھی قسم کی مہم جوئی سے باز رہیں۔

ان اقدامات سے نوزائیدہ بوسنیائی حکومت کو سانس لینے اور اپنی پولیس اور آرمی قائم کرنے کا وقت اور موقع ملا۔ بعد میں 1995ء میں سرب، کروٹ اور بوسنی فریقوں کے درمیان امن معاہدہ طے پا گیا اور آج بوسنیا ہرزیگووینا کا ملک یورپ کے قلب میں اپنی مسلم اکثریتی آبادی کے ساتھ قائم ہے۔

بوسنیا ہرزیگووینا آج نہ ہوتا اور اگر ہوتا بھی تو اس میں مسلمان نہ ہوتے، اگر بینظیر بھٹو ہمت نہ کرتیں اور ترک وزیراعظم کو ساتھ لے کر ان سنگین حالات میں بوسنیا کا دورہ نہ کرتیں۔ مگر آج اسلاموفوبیا کا کریڈٹ کوئی اور لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا کو باور کروا رہے کہ پہلی بار اسلاموفوبیا کے بارے میں دنیا کو انہوں نے ہی بتایا ہے۔ مگر دنیا یہ سب پہلے سے جانتی ہے۔

آج تقریباَ تین دہائیوں کے بعد بینظیر بھٹو کے بیٹے جو پاکستان کے نوجوان ترین وزیر خارجہ ہیں ترکی کے دورے پر ہیں، جہاں وہ باہمی تعلقات کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں اسلاموفوبیا بارے مشترکہ حکمت عملی پر زور دیں گے۔
مزیدخبریں