انہوں نے مزید کہا کہ مولانا فضل الرحمان، میاں نواز شریف، مریم نواز شریف اور آصف زرداری کو سیکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔ ان ہی لوگوں نے مجھے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان برٹش ہائی کمیشن سے فنڈنگ لیتے ہیں۔ صابر شاکر نے کہا مجھے پیغام دیا گیا کہ آپ کو نشان عبرت بنایا جائے گا۔
اے آر وائی بندش کے حوالے سے صابر شاکر نے مزید کہا کہ کیبلز کو چیئرمین پیمرا واقعی ایسا حکم نہیں دے سکتے اور نہ چینل پیمرا کرواتے ہیں، یہ کوئی اور کر رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں سبق سکھانے کیلئے پرپوزل وزیراعظم کے پاس بھیجی گئی لیکن انھوں نے مسترد کی۔ ڈی جی ایف آئی اے نے کارروائی روک دی اور پھر روایتی طریقہ اختیار کیا گیا۔
صابر شاکر کا کہنا تھا کہ ایف آئی آرز درج کرانے کے لئے سندھ اور دور دراز علاقوں کا انتخاب کیا گیا۔ 29 نومبر تک اس ملک میں آگ لگائی جا رہی ہے اور یہ آگ آپ سب لوگ دیکھ لینگے۔
ان کا کہنا تھا کہ کل تک محب وطن تھے، آج دشمن ہو گئے۔ کبھی کوئی سیاست دان دشمن ہے۔ ہمیں بند کمروں میں بتاتے تھے کہ فلاں فلاں دشمن ہے۔ صابر شاکر نے مزید کہا کہ وزٹ ویزے پر ہوں اور خود کو خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے پر مجبور کیا ہے۔
اینکر پرسن عمران ریاض خان نے کمیٹی کو بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے ٹیم بھجوائی جنہوں نے گھر کی ویڈیو بنائی اور بتایا گیا کہ یہ گھر گرانا ہے اس لئے دستاویزات دیکھنی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میرے گھر کی ڈرون ویڈیوز بنائی گئیں اور پولیس نے میرے گھر کا گھیراؤ کیا۔
عمران ریاض خان کا کہنا تھا کہ میرے خلاف ٹھٹھہ میں 502 کی دفعہ لگائی گئی جو صرف سرکار لگا سکتی ہے۔ نواب شاہ میں دوسرا مقدمہ ہے۔ تیسرا مانسہرہ میں درج ہوا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہائی کورٹ سے ضمانت ہے، جمعہ کو پیشی ہے، مجھے کہا گیا کہ اسلام آباد نہیں چھوڑنا ورنہ گرفتار کر لیں گے۔ عالمی تنظیمیں ہم سے تفصیلات مانگ رہی ہیں۔ پاکستان کا امیج متاثر ہوگا ہمیں مجبور نہ کریں کہ اقوام متحدہ چلے جائیں۔
صحافی اور اینکر پرسن ارشد شریف نے کہا کہ کچھ ادارے اور شخصیت خود کو ریاست سمجھتے ہیں لیکن ہم آواز بلند کرتے رہینگے۔ آئی جی سندھ، بلوچستان اور دیگر صوبوں کو بلائے کہ پینل کوڈ کے تحت 505 کی دفعات کیوں لگائی گئی؟ سیالکوٹ، لاہور، ملتان میں اے آر وائی کو بند کیا گیا اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی ہوئی۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ مجھے ان اینکرز کی رائے اور انداز سے اختلاف ہے مگر کسی کی آواز کو دبانا غیر قانونی ہے اور ہر کسی کو اظہار رائے کا حق ہونا چاہیے۔ چیئرمین کمیٹی نے اینکرز کے خلاف درج ایف آئی آرز کی تفصیلات طلب کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں ایجنڈے پر مزید بحث کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔