افغان امن معاہدہ: بھارتی خفیہ ایجنسی سرگرم، افغانستان میں خانہ جنگی کا خدشہ

07:07 AM, 1 Mar, 2020

علیم عثمان
29 فروری کو قطر کے دارالخلافہ دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے مابین ہونے والے معاہدے اور اس کے نتیجے میں افغانستان سے امریکی یا نیٹو فوجیوں کے انخلا کے بعد کے افغان منظر نامے کو بھانپتے ہوئے انڈین انٹیلی جنس ایجنسی، ریسرچ اینڈ انیلسز ونگ (را) کے سابق چیف وکرم سود متحرک ہو چکے ہیں جو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد سے اس تھنک ٹینک سے وابستہ ہیں جو ذرائع کے مطابق را کی طرف سے دی گئی اسائنمنٹس پر کام کر کے رپورٹس تیار کرتا ہے۔

آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن نامی اس تھنک ٹینک میں وکرم سود اہم ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔ 1988 میں پاکستان میں وزیراعظم محمد خان جونیجو کی سویلین حکومت کی طرف سے وزیر خارجہ زین نورانی نے جب جینیوا کارڈ پر دستخط کئے تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ میا‍ں محمد نواز شریف باوردی صدر مملکت جنرل ضیا الحق کی خواہش اور مؤقف کا ساتھ دیتے ہوئے جینیوا معاہدے کی مخالفت میں اپنی ہی پارٹی کے سربراہ اور وزیراعظم کے خلاف سامنے آ گئے تھے۔

خطے کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے سنجیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ افغانستان میں ایک عرصے سے متحرک بھارتی لابی اور اس کے پالیسی ساز دوحہ کارڈ کے بعد کا افغان منظر نامہ ترتیب دینے کے حوالے سے پاکستان کی سویلین قوتوں، بالخصوص پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو دوحہ کارڈ کی مخالفت میں قائل کرنے کے لئے کوشاں ہیں تاکہ اس معاہدے کی مخالفت میں ان کی حمایت حاصل کی جاسکے۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وکرم سود جینیوا کارڈ کی مخالفت میں نواز شریف کے تاریخی سیاسی کردار کے پیش نظر اب دوحہ کارڈ کی مخالفت میں بھی انہیں سیاسی تعاون پر آمادہ کرنے کی غرض سے خصوصی طور پر لندن جا کر ان سے ملے، جہاں وکرم سود نے حال ہی میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں سابق وزیر اعظم اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائد نواز شریف سے ایک گھنٹہ خفیہ ملاقات کی ہے۔

ذرائع کے مطابق وکرم سود کو پاکستان کی قوم پرست قوتوں، بالخصوص پشتو اور بلوچی بولنے والوں پر کام کرنے کا ماہر گردانا جاتا ہے، وہ پاکستان کی مختلف قومیتوں اور قوم پرست حلقوں کو ریاست کے خلاف اکسانے، ابھارنے میں مہارت کی شہرت رکھتے ہیں۔ جس کی بنا پر وہ را میں اسی سے متعلقہ ڈیسک (امور) کے سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔

پنجاب کے خلاف نفرت ان کا نعرہ، امتیاز اور پاکستان کی مختلف قومیتوں، خاص کر پشتون اور بلوچ قوم پرست قوتوں کو پنجاب کے خلاف کھڑا کرنا ان کی پالیسی کا مرکزی نکتہ رہا ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے دنوں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے لندن میں متعین افغان سفیر کے ہمراہ سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کی تو ذرائع کے مطابق سابق افغان صدر نے انڈیا اور افغانستان سمیت 2 ملکوں کے نمائندے کے طور پر ملاقات کی تھی جس میں انہوں نے مبینہ طور پر دونوں ممالک کی حکومتوں کی طرف سے خصوصی پیغام نوازشریف کو پہنچایا تھا۔

افغان طالبان اور امریکہ کے مذاکرات کے آغاز سے لے کر اب تک، اس تمام عرصہ میں خطے میں ہونے والی اس نہایت اہم سیاسی پیش رفت پر پاکستان کی دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کی معنی خیز خاموشی قابل غور ہے۔ حتیٰ کہ دوحہ معاہدے کے حوالے سے ہونے والی حالیہ پیش رفت پر بھی مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کی طرف سے کوئی پالیسی بیان سامنے نہیں آئی۔

مقتدر حلقے ملک کی ان اہم سیاسی جماعتوں کی خاموشی پر قدرے فکر مند دکھائی دیتے ہیں۔ مبصرین کے نزدیک افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد ڈیورنڈ لائن کے پار شدید خانہ جنگی کا خدشہ ہے اس لئے اس بابت ملک کی ممکنہ مستقبل کی سیاسی قیادتوں کا نکتہ نظر اور ممکنہ پالیسی نہایت اہم ہے۔ مبصرین کا خیال ہے کہ دوبارہ منتخب ہونے والی موجودہ افغان قیادت متنازعہ ہوچکی ہے، صرف طالبان ہی نہیں بلکہ عبداللہ عبداللہ، رشید دوستم، گلبدین حکمت یار، قریباً سبھی افغان سٹیک ہولڈر صدر اشرف غنی کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ لہٰذا دوحہ کارڈ کے بعد انٹرا افغان ڈائیلاگ کے دشوار گزار مرحلے کا چیلنج درپیش ہے۔ یعنی افغانستان کے اندرونی سیاسی فریقین کے مابین کسی مفاہمت کا عدم امکان پاکستان کے پڑوس میں شدید سیاسی عدم استحکام، بے امنی اور خوفناک خانہ جنگی  کے خدشات کو جنم دے رہا ہے جس سے پاکستان میں سیاسی استحکام اور امن و امان کے حوالے سے تشویشناک صورتحال کا امکان موجود ہے۔

اسی حوالے سے لندن میں مقیم شریف فیملی کی سفارتی سرگرمیوں کے باعث شریف برادران کا مستقبل قریب میں پاکستان واپسی کا امکان نظر نہیں آتا۔
مزیدخبریں