متاثرہ بچی کے والد بہرام خان نے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ ایک شادی کی تقریب میں شرکت کرنے کے لیے پنج دھیر گاؤں آئے تھے جہاں سے ان کی بیٹی لاپتا ہوگئی۔
بعدازاں متاثرہ بچی کی لاش چچ انٹرچینج کے نزدیک ایک زیر تعمیر عمارت کے اندر سے ملی۔
پولیس نے موقع پر پہنچ کر لاش تحصیل ہیڈ کوارٹرز ہسپتال منتقل کی جہاں طبی معائنے کے بعد اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ اسے ریپ کیا گیا تھا۔
جس پر پولیس نے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302(قتل عمد)، 376(زنا بالجبر) کے تحت مقدمہ کر کے تحقیقات شروع کردیں۔
ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) خالد ہمدانی نے اس گھناؤنے جرم میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے مختلف ٹیمیں تشکیل دے دی ہیں۔
صوبہ پنجاب میں موٹروے گینگ ریپ کیس کے منظرِ عام پر آنے کے بعد ریپ کے رپورٹ ہونے والے واقعات میں خاصی تیزی آگئی تھی البتہ گزشتہ 2 ماہ کے دوران ان کی تعداد میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
اس سے قبل دسمبر کے اوآخر میں فاروق آباد صدر پولیس تھانے کی حدود میں موجود کھیتوں میں 3 روز کی نوبیاہتا دلہن کا 3 افراد نے گینگ ریپ کردیا تھا۔
دوسری جانب فیصل آباد کے مرید والا پولیس تھانے کی حدود میں چک 192-جی بی میں ایک گھر میں ڈکیتی کے دوران ڈاکوؤں کے گروہ نے ایک خاتون کو ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔
علاوہ ازیں حکومت کے انسداد غربت کے احساس پروگرام کے تحصیل چوبارہ میں قائم دفتر میں کام کرنے والے ایک کلرک نے رجسٹریشن آنے والے 9ویں جماعت کی طالبہ کا ریپ کیا تھا جسے گرفتار کرلیا گیا تھا۔