عدالت عظمیٰ کے جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 10 رکنی بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظرثانی کیس کی پہلی سماعت کی، اس دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ سیرینا عیسیٰ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں اس 10 رکنی بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس مقبول باقر، جسٹس منظور احمد ملک، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس سجاد علی شاہ، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس قاضی محمد امین احمد اور جسٹس امین الدین خان شامل ہیں۔
سماعت کے دوران عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک کی طبیعت ناساز ہے اور وہ عدالت نہیں آسکتے۔
اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود عدالت میں دلائل دیے جس پر سربراہ بینچ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا آپ خود دلائل دیں گے؟
جسٹس عیسیٰ نے کہا کہ ہم 2019 سے مشکل میں مبتلا ہیں، میں خود دلائل دوں گا، میں نہیں چاہتا کہ کوئی اور ساتھی، کیس کے خاتمے تک بینچ سے ریٹائر ہو جائے۔
جسٹس عیسیٰ کا کہنا تھا کہ میں نے ایک متفرق درخواست بھی دائر کر رکھی ہے، میری درخواست غیر معمولی ہے، سپریم کورٹ میری درخواست پر غور کرے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ نظرثانی کیس کی براہ راست نشریات نشر کی جائیں، میں نے درخواست میں استدعا کی ہے کہ نظر ثانی کیس پی ٹی وی اور نجی ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کیا جائے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے اور میرے اہل خانہ کے خلاف تضحیک آمیز مہم چلائی گئی۔
عدالت عظمیٰ کے سینئر جج اور درخواست گزار جسٹس عیسیٰ کے دلائل پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم وفاق کا مؤقف سن لیتے ہیں۔
اس پر عدالت میں موجود ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان علالت کے سبب سپریم کورٹ میں پیش نہیں ہوسکے۔
جس پر جسٹس عمر نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مکالمہ کیا کہ اگر ہم سماعت کل تک ملتوی کردیں تو کیا آپ دلائل دے سکتے ہیں، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت جو مناسب حکم جاری کرے میں تیار ہوں۔
خیال رہے کہ 19 جون 2020 کو سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے 7 ججز کے اپنے اکثریتی مختصر حکم میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیا تھا۔