پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنماء ڈاکٹر رمیش کمار وانکوانی کی جانب سے پیش کردہ بل کی حمایت میں 72 اور مخالفت میں 50 ووٹ پڑے جسے بعدازاں ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے متعلقہ کمیٹی کے حوالے کر دیا۔
تاہم چائلد میریج بل 2019 پر ہونے والی زبردست بحث نے وفاقی کابینہ میں بھی تقسیم کو عیاں کر دیا ہے۔ ایک جانب وفاقی کابینہ کے اراکین وفاقی وزیر مذہبی امور انوارالحق قادری اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امورعلی محمد خان نے اس بل کی مخالف کرتے ہوئے اسے غیر پارلیمانی قرار دیا تو دوسری وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق نے بل کی حمایت کرنے کے علاوہ ڈپٹی سپیکر سے اسے کمیٹی میں بھیجنے کی درخواست بھی کر ڈالی۔
پیپلز پارٹی ایوان کی وہ واحد جماعت ہے جس کے ارکان اس بل کی حمایت میں متحد نظر آئے جب کہ مسلم لیگ نواز کے ارکان میں بھی تقسیم نظر آئی۔
یاد رہے کہ مذہبی جماعتوں کے ایوان بالا میں احتجاج کے باوجود پیپلز پارٹی کی رہنماء سینیٹر شیریں مزاری کی جانب سے پیش کیا جانے والا یہ بل منظور ہو گیا تھا جب کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔
وفاقی وزیر برائے مذہبی امور اور وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور نے مجوزہ بل کی مخالفت کرتے ہوئے اسے کمیٹی کے بجائے اسلامی نظریاتی کونسل میں بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔
علی محمد خان نے کہا، اسلامی نظریاتی کونسل ماضی میں اس نوعیت کا بل پہلے ہی یہ کہہ کر مسترد کر چکی ہے کہ یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے منافی ہے۔
انہوں نے کہا، یہ ایک اسلام مخالف بل ہے جسے وہ ایوان سے کسی طور پر پاس نہیں ہونے دیں گے۔ انہوں نے کہا، اقلیتی رکن کی جانب سے پیش کیا گیا بل اسلام کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے۔
انہوں نے کہا، وہ وفاقی کابینہ میں اپنا عہدہ دائو پر لگا کر بھی اس بل کی مخالفت کریں گے جب کہ ایوان ایسا کوئی بھی بل منظور نہیں کر سکتا جو اسلامی تعلیمات کے منافی ہو۔
وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ عرب امارات، ترکی، مصر اور بنگلہ دیش سمیت مختلف اسلامی ممالک پہلے ہی کم عمری کی شادیوں کو روکنے کے لیے اس نوعیت کے قوانین نافذ کر چکے ہیں جب کہ مصر کی جامعۃ الاظہر نے بھی اس معاملے پر فتویٰ جاری کیا تھا۔
ایوان میں جمیعت علمائے اسلام کی رُکن شاہدہ اختر علی بل کی مخالفت جب کہ مسلم لیگ نواز کی خاتون شائستہ پرویز اس کی حمایت میں بولتی ہوئی نظر آئیں۔
دوسری جانب ووٹنگ کے موقع پر مسلم لیگ نواز کے مرد اراکین کی ایک بڑی تعداد نے بل کی مخالفت کی جب کہ خواتین ارکان مجوزہ قانون کی حمایت میں کھڑی ہوئیں۔