نوجوان کے ہاتھ میں ایک کتاب تھی، کتاب کے سر ورق پر بنی تصویر میں ایک نوجوان نے اپنے بوڑھے باپ کو کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ ذیشان کتاب پر دکھائی دینے والی تصویر سے بہت متاثر ہوا۔ وہ کتاب کھول کر پڑھنے لگا۔ یہ ایک مزدور کی کہانی ہے جس نے اپنی زندگی میں بہت سے خواب دیکھے ہیں۔ پرانے وقتوں میں میٹرک کرنے والا یہ شخص مزدوری کرنے پر مجبور ہو گیا۔ حالات اور مفلسی سے لڑتے لڑتے اب بوڑھا ہو چکا ہے لیکن اس نے اپنے خواب سنبھال کر رکھے ہیں۔
بوڑھے مزدور رحمت نے بہت سی تاریخی، مذہبی اور علمی کتابیں پڑھ رکھی ہیں، جن سے وہ زندگی بھر اپنے خوابوں کی آبیاری کر تا رہا۔ وہ اپنی زندگی کے گزرے واقعات کو یاد کرتا ہے۔ اسے وہ دن یاد آتا ہے جب پہلی بار اس کے بیٹے نے پوچھا! بابا یکم مئی کیوں منایا جاتا ہے؟
اس نے اپنے بیٹے کو بتایا تھا کہ "یکم مئی مزدوروں کا عالمی دن ہے اس دن دنیا بھر میں مزدوروں کے خقوق کے لیے ریلیاں نکالی جاتی ہیں اور سیمینارز منعقد کیے جاتے ہیں۔ 1884میں فیڈریشن آف آرگنائزڈ ٹریڈرزاینڈ لیبر یونیز نے ایک اجلاس میں قرار داد کے ذریعے کچھ مطالبات پیش کیے ان میں سب سے اہم مطالبہ مزدوروں کے لیے سولہ گھنٹوں کے بجائے 8 آٹھ گھنٹے کام کرے کی تجویز تھی لیکن یہ مطالبہ نہ مانا گیا۔ احتجاجاً یکم مئی کو مزدوروں نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے ہڑتال کر دی۔ 8 گھنٹے کام کا نعرہ بہت مشہور ہوا اور 1886 شکاگو میں اڑھائی لاکھ سے زیادہ مزدوروں نے ہڑتال کی اور ایک تحریک کا آغاز کیا۔ پولیس کی طرف سے ان پر فائرنگ کر دی گئی ان کے سفید پرچم خون سے سُرخ ہو گئے۔ اس دن سے مزدوروں کا پرچم سُرخ ہے۔ لیکن ان مزدوروں نے اس وقت تک ہمت نہیں ہاری جب تک ان کے مطالبات کو تسلیم نہیں کر لیا گیا۔ 1889 میں ریمنڈ لیوین کی تجویز پر لیبر ڈے منانے کا فیصلہ ہوا۔ پہلا یوم مزدور 1990 میں منایا گیا، اس کے بعد سے یہ دن عالمی یوم مزدور کے طور پر منایا جاتا ہے۔
رحمت خود بھی مزدورں کے حقوق کے لیے نکالی جانے والی ریلیوں میں شریک ہوتا رہا، اسے اس بات پر فخر ہے کہ وہ مزدور بن کر حلال رزق کماتا رہا۔ اور یہ بھی جانتا ہے کہ آج مزدوروں کوان قربانیوں کی بدولت بہت سے حقوق مل چکے ہیں، جن میں آٹھ گھنٹے کا م کر نے کی اجازت سمیت ہفتہ وار چھٹی، انجمن سازی، لیبر کورٹس اور سب سے بڑھ کر ملازمت کا تحفظ شامل ہیں۔
ماضی میں گم رحمت کو اس کا بیٹا آفتاب آواز دیتا ہے (آفتاب ایک بیوروکریٹ آفیسر ہے)۔ رحمت خوش ہے کہ اسے اپنے بیٹے کے ساتھ یکم مئی مزدوروں کے عالمی دن کی ایک تقریب میں شرکت کرنی ہے، اس تقریب کا مہمان خصوصی خود اس کا بیٹا ہے۔ تقریب میں پہنچتے ہی ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ہال میں اہم شخصیات کے علاوہ بڑی تعداد ان مزدوروں کی تھی۔ جو اپنی انا کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی دھرتی اور اپنے خاندان کی بقا کے لیے دن بھر محنت کر تے ہیں جو اپنے خواب بیچ کر اپنے بچوں کی کفالت کرنے کو ہی زندگی کا مقصد سمھجتے ہیں، جن کے پر خلوص دل نرم اور ہاتھ محنت کرتے کرتے سخت ہو جاتے ہیں۔ ان مزدوروں کو دیکھ کر رحمت کے بوڑھے چہرے پر جوان مسکراہٹ لوٹ آئی۔ وہ پہلی نشستوں پر اپنے بیٹے کے ساتھ فخریہ انداز میں بیٹھا تھا۔ کچھ دیر بعد مہمان خصوصی کو سٹیج پر بلایا گیا۔ افتتاحی کلمات ادا کرنے کہ بعد آفتاب نے اپنی تقریر کا آغاز اس شعر سے کیا
دن بھر کڑکتی دھوپ میں کرتا رہا جو کام
اُجرت ملی تو ہاتھ کے چھالوں پہ رو پڑا
مزدور وہ فرد ہے جو اپنا کام ذہنی وجسمانی محنت اور مشقت سے سر انجام دیتا ہے۔ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں مزدوروں کا اہم کردار ہے۔ پاکستان میں 64 ملین مزدور طبقہ ہے جو زراعت صنعت اور دیگرشعبوں میں ملک وقوم کی ترقی کے لیے محنت کر رہا ہے۔ افرادی قوت کے اعتبار سے پاکستان دنیا کا نواں بڑا ملک ہے۔ جو ناصرف پاکستان بلکہ بیرون ممالک میں بھی افرادی قوت مہیا کر رہا ہے۔ اے میری قوم کے باہمت مزدورو! تم ایک برادری ہو تمہاری وجہ سے ملک کا معاشی پہیہ چلتا ہے۔ تمہاری وجہ سے ملک کی انڈسٹری چلتی ہے۔ تم اپنے حقوق کی جدوجہد جاری رکھنا۔ مزدور کو خود اللہ نے اپنا دوست بنایا ہے۔ اس کا حق فوری ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ پیارے آقاﷺ نے محنت کرنے والوں سے محبت فرمائی ہے۔ حضور پاک ﷺ نے محنت سے کی ہوئی کمائی کو پاکیزہ قر ار دیا ہے۔ صحابہ کر ام خود محنت ومشقت سے اپنی روزی کمایا کرتے تھے۔ مجھے فخر ہے کہ میں بھی ایک مزدور کا بیٹا ہوں۔
مزدور زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
رحمت کے گالوں پر شبنم کی بوندیں موتیوں کی طرح چمکنے لگی۔ خوشی اور فرط محبت کے جذبات سے لبریز رحمت نے کھڑے ہو کر نعرہ لگایا۔ مزدور زندہ باد۔
سورج آسمان پر آب و تاب سے چمک رہا ہے۔ درخت کے سائے میں بیٹھا نوجوان خود سے بے خبر، بازو فضا میں بلند کیے بے ساختہ نعرہ لگا رہا تھا۔
مزدور زندہ باد
مزدو ر زندہ باد