بین الاقوامی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ ‘ ایران ہمسایہ ملک ہے اور ہم سب ایران کے ساتھ اچھے اور خصوصی تعلقات کے خواہاں ہیں’۔
اس سے قبل دونوں ممالک خطے میں بالادستی کے حوالے سے خوف کا شکار ہوئے تھے اور 2016 میں سعودی عرب میں ایک عالم کو سزائے موت دیے جانے کے بعد ایران میں سعودی سفارتی مشن پر حملہ کیا گیا تھا۔
محمد بن سلمان نے کہا کہ ‘ہم چاہتے ہیں کہ ایران کے حالات ابتر نہ ہوں بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ایران آگے بڑھے، خطے اور دنیا کو استحکام کی طرف لے جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاض خطے اور عالمی اتحادیوں کے ساتھ مل کر تہران کے ‘منفی رویے’ کا حل ڈھونڈنے کے لیے کام کر رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق سعودی ولی عہد کا لہجہ گزشتہ انٹرویو کے مقابلے میں مفاہمانہ تھا کیونکہ اس سے قبل انہوں نے ایران پر خطے میں عدم استحکام پیدا کرنے کاالزام لگایا تھا۔
محمد بن سلمان نے ایران سے مذاکرات کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی تاہم فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق 9 اپریل کو بغداد میں عراقی وزیراعظم مصطفیٰ الخدیمی کی ثالثی میں مذاکرات ہوئے تھے جو مذکورہ رپورٹ تک خفیہ تھے۔ عراقی حکومت کے ایک عہدیدار نے اے ایف پی کو ان مذاکرات کی تصدیق کی تھی جبکہ مغربی سفارت کاروں نے کہا تھا کہ بہتر تعلقات اور کشیدگی کم کرنے کے لیے ثالثی کے بارے میں انہیں پہلے ہی بریف کیا گیا تھا۔
سعودی عرب نے سرکاری میڈیا کے ذریعے ان مذاکرات کی تردید کی تھی جبکہ تہران بدستور خاموش رہا تھا تاہم اس نے اتنا کہا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ مذاکرات کا ہمیشہ خیرمقدم کیا جائے گا۔
دونوں ممالک کے درمیان یہ اقدامات ایسے موقع پر کیے جا رہے ہیں جب امریکی صدر جوبائیڈن خطے میں طاقت کے توازن میں تبدیلی لارہے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ختم کیے گئے 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ سعودی عرب اور ایران خطے میں کئی تنازعات میں ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں، جس میں شام سے یمن تک تنازعات شامل ہیں جہاں سعودی عرب اتحادیوں کے ساتھ حوثی باغیوں کے خلاف لڑ رہا ہے۔ ایران حوثی باغیوں کی حمایت کرتا ہے جو سعودی عرب اور ان کی اتحادی فوجیوں کے خلاف 2015 سے لڑ رہے ہیں۔ حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر میزائل حملے بھی کیے گئے جن میں تیل کی تنصیبات پر حملے بھی شامل ہیں۔
محمد بن سلمان نے اس انٹرویو میں باغیوں کے ساتھ جنگ بندی اور مذاکرات کی بحالی کا بھی مطالبہ کیا۔
دوسری جانب یران نے سعودی عرب کی جانب سے 'لہجے میں تبدیلی' کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا کہ اسے اُمید ہے کہ دونوں ممالک امن کے حصول کے لیے اکٹھے کام کرسکتے ہیں۔
سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی جانب سے اس بیان کے بعد ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے یہ بیان دیا، جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا ملک تہران کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے۔ ترجمان وزارت خارجہ سعید خطیب زادے کی جانب سے کہا گیا کہ 'تعمیری نظریات اور مکالمے پر مبنی نقطہ نظر کے ساتھ ایران اور سعودی عرب اختلافات پر قابو پا کر امن، استحکام اور علاقائی ترقی کے حصول کے لیے باہمی روابط اور تعاون کے ایک نئے باب میں داخل ہوسکتے ہیں'۔
اس ضمن میں ایک سفارتکار کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی حکومت سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سخت مؤقف اپنائے ہوئے ہے اور یمن جنگ ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہی ہے ایسے میں محمد بن سلمان نے یہ ظاہر کیا کہ وہ خطے کو مستحکم کرنے کے لیے ایک اہم شراکت دار ہیں۔
علاقائی ذرائع کا کہنا تھا ایران اور سعودی عہدیداران نے کشیدگی میں کمی کے لیے رواں ماہ عراق میں براہِ راست مذاکرات کیے۔ بات چیت کا مرکز یمن اور تہران کے عالمی طاقتوں کے ساتھ کیے گئے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی تھا۔